تہران(ایجنسیاں)۔ ایران کے جنوبی شہر شیراز میں مسلح افراد نے اہل تشیعہ کے ایک مقدس مقام پر فائرنگ کر کے کم از کم 15 افراد کو ہلاک کر دیا۔ سرکاری خبررساں ادارے کے مطابق اس واقعے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہو گئے۔ جیوڈشری کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق شاہ چراغ مسجد پر فائرنگ کے شبہے میں دو مسلح افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ تیسرا مسلح شخص فرار ہو گیا ہے۔ سرکاری خبر رساں ادارہ ’ ارنا‘ نے اس حملے میں پندرہ ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے جبکہ سرکاری ٹی وی کے مطابق 40 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اس حملے کے آثار ان حملوں سے مماثلت رکھتے ہیں جو ماضی میں سنی انتہاپسند شیعہ اکثریت کے خلاف کرتے آئے ہیں۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک پچھلے چالیس دنوں سے ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے عرصے میں ایران میں ہونے والے یہ سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔ ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق بدھ کو یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق شام 5 بج کر 45 منٹ پر شیراز میں واقع مزار شاہ چراغ میں پیش آیا ہے۔ ارنا کے مطابق فائرنگ کرنے والے دوحملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور تیسرے کو گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘فارس’ کے مطابق گرفتار کیے گئے دونوں حملہ آور ایرانی نہیں ہیں لیکن اس نے ان کی قومیت کی وضاحت نہیں کی ہے۔
ایک اورنیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم نے ایک نامعلوم سکیورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آور ‘تکفیری’ تھےجنھوں نے ملک میں جاری بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ حملہ کیا ہے۔ایرانی میڈیا اور حکومت ’تکفیری‘ کی اصطلاح سنی انتہاپسندوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ایران میں بائیس سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی تحویل کے دوران ہلاکت پر ہزاروں لوگ ملک بھر میں احتجاج کر رہے ہیں۔ اور یہ احتجاج بدھ کو بھی جاری رہا جب ان کا چالیسواں منایا جا رہا تھا۔
چالیسویں کا سوگ ایران کی روایات کا حصہ ہے اور بدھ کے روز بھی مہسا امینی کے کرد آبائی شہر ساقیز میں ہزاروں افراد ایک طویل قطار میں ان کی قبر پر پہنچے۔
اس موقع پر مظاہرین نے ’ آمر کو پھانسی دو‘ کے نعرے بھی لگائے۔ وڈیو فوٹیجز کے مطابق ایچی کے قبرستان میں خواتین نے اپنے سروں سے حجاب بھی اتار پھینکا۔ اس موقع پر بڑی شاہراہوں اور مٹی سے اٹے راستوں تک، ہر جگہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئی۔