علی گڑھ: شعبہ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جشن یوم آزادی کے موقع پر ـ’’سامراجیت، تحریک آزادی اورہندوستانی سماجیات کے ادبی و لسانی تناظر‘‘ کے موضوع پر خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ صدر شعبہ عربی پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی کی دعوت پر شعبہ تاریخ ،اے ایم یوکے استاد پروفیسر پرویز نذیر نے پر مغز خطبہ پیش کیا۔ صدر شعبہ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں جنگ آزادی کی تحریک کے تاریخی پس منظر اورزمینی سطح پر کارفرما مختلف عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کے اجراء اور’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ کی تصنیف کے ذریعہ سامراجیت کامقابلہ کیا۔ملک کی آزادی میںعلی برادران کی خلافت تحریک،جرمنی میں غدر پارٹی اور برلن کمیٹی کی خدمات، افغانستان میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، مولانا برکت اللہ بھوپالی اورچمپک رمن پلئے کی عبوری حکومت، تحریک ریشمی رومال،مٹھیا تحریک ،راجہ رام موہن رائے کے جاری کردہ مرآۃ الاخبار، مولانا ابوالکلام آزادکے نیرنگ عالم، الھلال،البلاغ، الجامعۃ اور عربی زبان وادب کے مشہور شاعر مولانا فضل حق خیرآبادی کی عربی شاعری ’’ الثورۃ الھندیۃ‘‘ کے علاوہ علامہ زین الدین ملیباری کی کتاب ’’تحفۃ المجاہدین‘‘ نقوش جاوداں کا درجہ رکھتے ہیں۔صدر شعبہ نے جنگ آزادی کے سلسلہ میں انڈین نیشنل کانگریس اور مصر کی وفد پارٹی کے باہمی تعاون کا بھی ذکر کیا جس کی نمائندگی سنہ ۱۹۳۹ء کے پریپوری سیشن میں نظر آتی ہے۔ یہ زاوئے ادبیات کی بین موضوعاتی تفہیم میں معاون ہوتے ہیں۔ مہمان مقرر پروفیسر پرویز نذیر نے اپنے خطاب میں خاص طور سے عربی زبان وادب کا تاریخ سے گہرے رشتہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے سامراجیت کو نشاۃ ثانیہ سے جوڑتے ہوئے ’’گولڈ، گلوری، گاڈ‘‘ (دولت، سیاسی نمود اور کلیسا) کے مثلث کو ہندوستان کو قید غلامی میں لانے کا بنیادی حربہ بتایا اور استعماری طاقتوں کے مظالم اور ہندوستانی عوام کی بے حسی ولاغری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انگریزوں نے اپنی طاقت کی زور پر ہندوستانیوں کی سوچنے وسمجھنے کی صلاحیتوں کو کمزور کردیا تھا ، یہاں کے عوام مختلف ریاستوں وطبقات میں منقسم تھے ، انگریزوں نے تجارت کی غرض سے یہاں کے عوام کو کمزور کرنا شروع کردیا اور یہاں سے قیمتی اشیاء اور دوسرے نوادرات اپنے ملک میں پہونچانا شروع کردیا جس سے یہاں کی مصنوعات کمزور پڑ گئیں، نیز ہندوستانی عوام کو سیاسی وسماجی ، واقتصادی طور پر ذہنی غلام بنادیا تھا ۔ ایسے حالات میں اس وقت کے نباض اور دانشوروں نے ہندوستانی عوام کے لئے نشأۃ ثانیہ کا خواب دیکھا جن میں شیر میسور ٹیپو سلطان شہید ، مولانا ابوالکلام آزاد،سرسید احمد خاں، حاجی شریعت اللہ، راجہ رام موہن رائے اور دیگر شخصیتوں اور تاریخ میں معروف تحریکوں اور اداروں نے عوامی بیداری کے ذریعہ بڑی خدمات انجام دیں۔ مرأۃ الاخبار کے ذریعہ لوگوں کو ذہنی واقتصادی غلامی زنجیروں سے آزاد کرانے کی مہم چھیڑی گئی،سرسید احمد خاں نے انگریزی تعلیم کو لازم قرار دیا کہ اسی زبان کے ذریعہ ہم دشمنوں کا مقابلہ کرکے طاقتور ومظبوط ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے خاص طور سے جدید تعلیم اور علی گڑھ تحریک کا ذکر تے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں نے سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعہ نئی روشنی اور بیداری لاتے ہوئے ہندوستان کی آزادی میں بہت بڑا کردار اداکیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کے شائع ہونے والے’’ پیسہ اخبار‘‘ نے پہلی بار ’’جنگ آزادی‘‘ کے لفظ کا استعمال کیا۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کے لئے عوامی جذبات کو فروغ دینے میں اس اخبار کا بنیادی کردار رہا ہے۔
مہمان خصوصی پروفیسر محمد اظہر، ڈین، انٹرنیشنل اسٹڈیز فیکلٹی اور صدر شعبہ علوم مغربی ایشیاء ، اے ایم یو نے اپنے خطاب میں صدر شعبہ عربی کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمیں بڑی مسرت ہے کہ شعبہ عربی یوم آزادی کی تقریب کے موقع پر اس نوع کے خطاب کا اہتمام کر رہا ہے جس سے ہمارے طلبہ تاریخ کے بہت خوابیدہ گوشوں سے روبرو ہوتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور سے مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، سرحدی گاندھی، مولانا ابولکلام آزاد اورسرسید احمد خاں کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ شخصیتیں ہیں جن کے بغیر ہندوستانی عوام ذہنی وسیاسی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کرسکتی تھی، آج ہم لوگوں پر ان کے احسان عظیم ہیں۔
صدر جلسہ پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے اپنے صدارتی کلمات میں صدر شعبہ عربی کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں مختلف زبانوں کا نہایت اہم کردار رہا ہے، انہوں نے بھارتیندو ہرش چندر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک قصہ ’’ بھارت دور دشا ‘‘ کے نام سے لکھا تھا جس نے ہندوستانیوں کو خواب غفلت سے جگانے کا کام کیا ، نیز اس نے انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرکے جنگ آزادی میں اہم کردار اداکیا ۔ بھارتیندوہرش چندر نے قرآن کا جزوی ترجمہ بھی کیا۔ انہوں نے جئے شنکر پرشاد، میتھلی شرن گپتا اور شیام لال گپتا پارشد کے کارناموں کا ذکر کیا جو قومی یکجہتی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کامائنی اوربالابودھنی جیسی تخلیقات اوررسائل نے خواتین کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس کے عکس جھانسی کی رانی جیسے کردار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں شعبہ کے تمام اساتذہ، طلباء وریسرچ اسکالر موجود تھے۔ پروگرام کا آغاز صدیق احمد ( ریسرچ اسکالر) کے تلاوت کلام پاک سے ہوا اور شکریہ کے کلمات شعبہ کے استاد ڈاکٹر عرفات ظفر نے ادا کئے۔