حیدرآباد : منیجنگ ایڈیٹر سیاست جناب ظہیر الدین علی خاں کے انتقال پر ملال پر سارے ملک کے دینی ، سماجی تہذیبی و ثقافتی اور صحافتی حلقوں میں صدمہ کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ موصوف صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی معاملوں میں بھی سرگرم رول نبھاتے۔ ہجومی تشدد ( ماب لنچنگ ) کے واقعات میں شہید ہونے والوں کے والدین ، ان کی بیواؤں اور بچوں کی مالی و اخلاقی مدد کے ساتھ ساتھ قانونی امداد کی فراہمی میں وہ پیش پیش رہے اور اس ضمن میں ملک کے ممتاز حقوق انسانی کے جہدکاروں تیستاستیلواد ، پروفیسر اپوروانند ، اکار پٹیل ، برنداکرت ، ریٹائرڈ جسٹس کولسے پاٹل اور ہرش مندر کے علاوہ ملک میں بے باک و نڈر صحافت کی علامت بنے روش کمار سے قریبی رابطہ میں رہا کرتے تھے ان شخصیت کے ساتھ ان کے مثالی دوستانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ جناب ظہیر الدین علی خاں کے انتقال پر روش کمار نے گہرے صدمہ کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر سیاست ڈاٹ کام کی خبر کو شیئر کرتے ہوئے کچھ یوں تحریر کیا ’’ظہیر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے اپنے دوست غدر کے ارتھی جلوس میں شرکت کے لیے گئے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرے گئے ، دس پندرہ سال تک باقاعدہ ان سے رابطہ رہا ان کے ذریعہ ہی حیدرآباد سے تعلق تھا جو آج ٹوٹ گیا ۔ ہم بہت اداس ہیں ، سیاست اخبار کے ذریعہ ان کی صحافت دور دور تک پہنچ رہی تھی ۔ اب وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں ۔ ہمارے درمیان نہیں ہیں میں انہیں بہت یاد کررہا ہوں ‘‘ ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ فیس بک پر روش کمار کے 4 ملین ، ٹوئیٹر پر 3.3 ملین اور انسٹاگرام پر 4.2 ملین فالوورس ہیں جب کہ ان کے آفیشل یوٹیوب چیانل کے سبسکرائبرس کی تعداد 6.77 ملین تک پہنچ گئی ہے ۔ چونکہ جناب ظہیر الدین علی خاں اور روش کمار کے درمیان گہری دوستی تھی۔ اس دوستی کو مد نظر رکھتے ہوئے روزنامہ سیاست کے نامہ نگار نے رویش کمار سے بات کی جس میں روش کمار نے گلوگیر لہجہ میں کہا کہ ظہیر صاحب کا اچانک انتقال سیاست فیملی ، صحافت اور ملک کے لیے بہت بڑا نقصان ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہفتہ میں کم از کم دو مرتبہ ان سے بات ہوتی تھی اور جب بھی بات ہوتی ملک کے حالات پر گہری تشویش ظاہر کرتے اور ان حالات کو لے کر وہ بہت سوچا کرتے تھے اور یہی کہا کرتے تھے کہ ملک میں نفرت کا جو ماحول ہے وہ ختم ہوجائے ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر کام ہر بات کے لیے وہ ہمیشہ ’’ ہاں ‘‘ کہتے ہیں ۔ ان کے پاس ’’نا‘‘ کہنے کا کوئی بہانہ نہیں ہوتا تھا ۔ ہمیشہ امکانات کی تلاش میں رہتے تھے اور ان کا کہنا ہوتا کہ ایسا کرنے سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں ۔ رویش کمار نے مزید بتایا کہ ہمیشہ ان کے ذہن میں بے شمار اسکیمات چلتی رہتی تھیں ۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ظہیر صاحب ان سے حیدرآباد آنے کے لیے بار بار اصرار کررہے تھے اور فیملی کے ساتھ آنے کی دعوت دیتے رہے چنانچہ روش کمار رواں سال حیدرآباد آنے اور کچھ دن یہاں سیاست فیملی کی میزبانی سے محظوظ ہونے کا منصوبہ بنا رہے تھے کہ یہ سانحہ پیش آیا ۔ روش کمار کے مطابق ’’ ظہیر صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ حیدرآباد کے دورہ سے آپ کے پروگرامس میں کوئی خلل نہیں پڑے گا آپ کے لیے شہر میں ہی یا پھر وقار آباد کے فارم ہاوز میں پروگرام ریکارڈ کرنے کا انتظام کیا جائے گا اور شام کو جن سے ملاقات کرنی ہوگی اس کے بارے میں بتادیا جائے گا ۔ رویش کمار نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ظہیر صاحب ایک انسانیت نواز شخصیت تھے ان کے انتقال سے بہت صدمہ پہنچا ہے ۔ پندرہ ، سولہ برسوں سے ہماری دوستی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے پرانے ٹی وی چینل ( این ڈی ٹی وی ) پر روزنامہ سیاست اور ظہیر صاحب کے فلاحی خدمات پر ایک ڈاکیومنٹری بھی بنائی تھی اور اس کے لیے بطور خاص حیدرآباد آئے تھے ۔ ظہیر صاحب سے ہفتہ میں دوبار تو بات چیت ہوتی تھی اور بات چیت نہ ہوتی تو میسجیس کا تبادلہ ہوتا ۔ رویش کمار نے سیاست کے بیت المعمرین ’ سکون ‘ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے ایک مرتبہ ظہیر صاحب سے خواہش کی تھی کہ ’’ سکون ‘‘ میں ان کے لیے بھی جگہ بک کرلیں تاکہ بڑھاپے میں وہاں رہ سکوں ۔