ایسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں فساد کو نظامی تشدد قرار دیا گیا
نئی دہلی(پریس ریلیز): ٣١ جولائی کو ہریانہ کے نوح میں ہوئے پرتشدد واقعات کے بعد پورے علاقہ میں خوف وہراس کی لہر پائی جارہی ہے، لوگ اپنے اوپر ہوئے ظلم اور زیادتی کی شکایتیں پولس تھانہ میں درج کرانے میں بھی خوف محسوس کررہے ہیں۔ ایک طرف شرپسندوں نے یہاں غریبوں پر ظلم ڈھایا اورمکانوں اور دکانوں سمیت ایک مسجد کوبھی نذرآتش کرتے ہوئے مسجد کے امام کو موت کے گھاٹ اُتار دیا وہیں شرپسندوں کی غندہ گردیوں کےبعد مقامی انتظامیہ نے غریب جھونپڑوں اور سڑک کنارے تعمیر سینکڑوں باکڑوں کو بلڈوزر کے ذریعے بھی منہدم کردیا۔
تشدد سے متاثرہ علاقہ کے عوام کے دلوں میں بیٹھے ہوئے خوف کو دور کرنے اورعوام میں اعتماد بحال کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد کے واقعات کے اسباب، اس کے پیچھے چھپے سازشی ذہنوں کا پتہ لگانے اور سچائی سے پردہ اُٹھانے شہری حقوق کےلئے قائم ادارہ ایسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس (اے پی سی آر) نے کمیونٹی لیڈران، سماجی کارکنان، صحافی اور وُکلاء پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ترتیب دی اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مکمل تحقیق، متاثرہ لوگوں کے انٹرویوزاور شہادتیں جمع کرتے ہوئے مکمل رپورٹ ترتیب دی۔ 44 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کو میڈیا کے سامنے ریلیز کیا گیا ہے جس میں نوح میں ہوئے فساد کو نظامی تشدد قرار دیا گیا ہے اوراس میں پولیس کی ملی بھگت کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے پی سی آرنیشنل سکریٹری ندیم خان نے واضح کیا کہ نوح میں ہوئے فسادات بے ساختہ نہیں تھے بلکہ اسے منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو معاشی طور پرکمزور کرنے پہلے یہاں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں میں دنگائیوں نے حملے کئے بعد میں مقامی انتظامیہ نے سڑک کنارے تعمیر کردہ مکانات، پان کی دکانیں، باکڑے، گاڑیوں کی مرمت کرنے کے گیراج، ٹائر پنکچر کے گیراج اور چھوٹے تھیلا والوں کی دکانوں وغیرہ کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ متعصبانہ وڈیو کلپس کو سوشیل میڈیا پر وائرل کرکےتشدد کے لئے عام لوگوں کو اُکسایا گیا تھا، جب منصوبے کےمطابق تشدد برپا ہوا تو مسلمانوں اور غریب لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ تشدد کے واقعات میں چھ لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے، پولس نے زیادہ تر غریب اور بے قصور لوگوں کو حراست میں لیا ہے یہی وجہ ہے کہ علاقہ کے غریب اور مظلوم لوگ بے حد پریشان ہیں۔ ندیم خان نے پولس پر زور دیا کہ وہ مظلوم عوام کو انصاف دلانے کے لئے اُن کی شکایتوں کو درج کریں۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں متاثرہ لوگوں کے بیانات درج کئے گئے ہیں ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں ہوئی توڑپھوڑ اور انتظامیہ کے ذریعے باکڑوں کی مسماری کی تصاویر منسلک کی گئی ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈوکیٹ رمضان چودھری کہا کہ آزادی کے بعد خطے میں ترقیاتی کاموں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ تشدد کو بٹو بجرنگی اور مونو مانیسر جیسے شرپسندوں نے بھڑکایا جو امن میں خلل ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ضلع نوح کے بار کونسل کے ضلعی صدرایڈووکیٹ طاہر حسین دیولہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح انتظامیہ نے پرتشدد جھڑپوں کے لیے اکسانے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے علاقہ کے عام اور غریب لوگوں کو من مانے طو پر گرفتار کیا،انہوں نے بتایا کہ گرفتار شدگان میں تشدد کے دن تاج محل کی سیر کرنے کے لئے گئے ہوئے لوگ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا مشاہدہ پیش کرتے ہوئےبتایا کہ انہوں نے میوات میں خوفناک منظردیکھے ہیں جس میں گھروں اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
تشدد میں شہید ہونے والے مسجد کے امام سعد کے بھائی شاداب انوار نے اپنے بھائی کی موت پر انصاف کا مطالبہ کیا اور حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور اُن کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت ہریانہ سے معاوضہ اور حکومت بہار سے ان کے پسماندگان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی اپیل کی۔
آزاد صحافی صباح گرمت نے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی تشویشناک حالت زار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ حالات اتنے خوفزدہ ہیں کہ لوگ ایف آئی آر درج کرنے میں بھی خوف محسوس کررہے ہیں۔ صباح نے خواتین کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک، عصمت دری کی جھوٹی افواہوں، اور انٹرنیٹ بند کے ذریعے آوازوں کو دبانے کی مثالوں کی بھی نشاندہی کی۔
ڈاکٹر اوم پرکاش دھنکر، کوآرڈینیٹر، آل انڈیا کھاپ پنچایت نےکہا کہ کس طرح حالیہ واقعات حکومتی سازش کی عکاسی کرتے ہیں انہوں نے شرپسندوں کے خلاف درج مقدمات میں سیاست کے کردار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے معاشرے کے اندر اتحاد اور خود احتسابی کی ضرورت پر زور دیا۔ کرنے پر زور دیا اور انصاف کے لیےہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔
پروفیسر اپوروانند، دہلی یونیورسٹی: پروفیسر اپوروانند نے نوح میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے لیے اے پی سی آر کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مین اسٹریم میڈیا پر جھوٹ پھیلانے پر تنقید کی اور حقائق کی تلاش کی اہمیت پر زور دیا۔ اپوروانند نے جلوسوں کی آڑ میں تشدد کی تیاریوں میں انتظامیہ کے ہونے کا ذکر کیا۔
محمد ادیب، سابق ممبر پارلیمنٹ، راجیہ سبھا: ادیب نے بعض گروپوں کے ساتھ پولیس کے وابستگیوں اور نو سال تکایک اچھّا وزیر اعظم نہ ہونے پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے انصاف کے لیے لڑنے کی ضرورت پر زور دیا، عدالتوں میں نا انصافیوں کے لیے کھڑے ہونے کا وعدہ کیا۔ ادیب نے ظلم سہنے والی خاموش آوازوں کے ساتھ چیلنجز کا مقابلہ اتحاد سے کرن پر زور دیا۔
ان متعلقہ افراد کی آوازیں تشدد کے بعد انصاف، اتحاد اور احتساب کی ضرورت کی بازگشت کرتی ہیں۔ وہ اجتماعی طور پر ایک مکمل تحقیقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور مستقبل میں ہونے والے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات پیش کرتے ہیں۔