نئی دہلی/ رانچی(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو)یہ خبریقینا اردو سے حقیقی معنوں میں عشق کرنے والے محبانِ اردو کو رنجیدہ کرنے والی ہے کہ سرزمین جھارکھنڈ میں اُردو کی قانونی لڑائی لڑنے کے حوالے سے تازندگی جدوجہد کرنے والے ممتاز صاحب قلم، معروف و ممتاز ناقد پروفیسر ابوذر عثمانی اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ اردو کی بقا و ترقی میں ساری زندگی وقف کرنے والی مثالی شخصیت کے طور پر اپنی شناخت رکھنے والے پروفیسر عثمانی نے اردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ موصوف کی نماز جنازہ بعد نماز عصراداکی گئی اور مقامی بریاتو قبرستان رانچی میں انہیں دفن کیا گیا ۔ موصوف انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کے صدرتھے ۔
خیال رہے کہ صوبہ بہار کے ضلع گیا (اب اورنگ آباد ) کے محلہ قصبہ رفیع گنج میں 2 جنوری 1937 کو موصوف کی پیدائش ہوئی ۔ ان کے والد محترم مولانا محمد ایوب عثمانی ایک عالم دین ، خداترس ، دیندار اور نیک انسان تھے ساتھ ہی وہ صاحب طرز مضمون نگار بھی تھے جو سیاسی اور دینی مضامین تواتر سے لکھا کرتے تھے۔
ابوذر عثمانی کو طالب علمی کے زمانے سے ہی اردو زبان سے قربت رکھتے تھے اور مضمون نویسی کا شوق بچپن میں ہی پیدا ہوا ۔ ابھی وہ نو ویں جماعت ہی میں تھے کے بچوں کے رسالہ” غنچہ “میں ان کا مضمون بہ عنوان” استاد کی عزت” شائع ہوا۔ عنبر شمیم کے مطابق پکے روشنائی میں چھپے اپنے مضمون کو دیکھ کر ان کا یہ شوق ایسا بڑھا کہ پھر بڑھتا ہی رہا ۔کالج کے زمانے میں بھی ان کے مضامین تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ اردو سے انسیت و محبت بڑھتی رہی جو ابوذر عثمانی کی سوچ و فکر کا جزو لاینفک بن گئی اور وہ اردو کی بقا و ترقی کے لیے زمانہ طالب علمی ہی سے کوششیں کرنے لگے ۔ بہار یونیورسٹی مظفر پور سے اردو اور فارسی زبان میں ایم۔ اے کی سندیں حاصل کیں۔ اردو پڑھانے کے لیے رانچی کالج میں ان کی عارضی تقرری 1943 ء میں ہوئی۔
جب 1945 میں اردو کا پوسٹ گریجویٹ شعبہ وجود میں آیا تو بہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تقرری عمل میں آئی اور پھر 1995 میں وینوبا بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ سے منسلک ہوئے۔ اور جنوری 1997 میں بحیثیت صدر شعبہ اردو کے عہدہ سے با عزت و وقار سبکدوش ہوئے۔ ابوذر عثمانی نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں ایک مضمون “بہار میں اردو تنقید کا ارتقاء” لکھا تھا ۔ان کا یہ مضمون پٹنہ سے شائع ہونے والے جریدہ “صنم ” کے بہار نمبر میں شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں ان کے چرچے ہونے لگے۔ اس مضمون کے ساتھ ہی بہار کے ابھرتے ہوئے ناقد میں ان کا شمار ہونے لگا۔
پروفیسر عثمانی نے اردو زبان کی اشاعت و ترویج کے لیے تن تنہا جس قدر محنت و مشقت کی ہے اس کی مثال جھارکھنڈ میں نہیں ملتی ۔ ان کی اردو زبان سے والہانہ عقیدت و محبت اور خدمات اور قربانیوں کو دیکھتے ہوئے 2013 ء میں سحر فاؤنڈیشن رانچی کی جانب سے بابائے اردو جھارکھنڈ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا مگر ان کی اعلی ظرفی دیکھیے کہ انہوں نے ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ ” بابائے اردو کا لقب صرف مولوی عبدالحق کے لیے مخصوص ہے اس پر کسی اور کا حق نہیں” ۔ اس کے علاوہ ان کو دوسرے کئی ایوارڈ و اعزازات سے بھی نوازا گیا جس میں 2013 میں لوک سیوا سمیتی جھارکھنڈ کی طرف سے جھارکھنڈ رتن ایوارڈ اور 2013 ہی میں عمر فرید ایوارڈ فور ایکسلنس منجانب قومی تنظیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
عنبر شمیم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "پروفیسر عثمانی کے یوں تو شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے مگر میں ذاتی طور پر ان کے دو ایسے لائق و فائق شاگردوں کو جانتا ہوں جو نہ صرف استاد ہوئے بلکہ ادبی دنیا میں بھی اپنا مقام مستحکم کیا۔ ان میں ایک تو پروفیسر منصور عمر مرحوم تھے جو دربھنگہ کے سی ۔ ایم کالج میں اردو کے استاد تھے اور جنہوں نے اپنا مقالہ ان ہی کی سرپرستی میں لکھا اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی سند پائی تھی اور دوسرے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا نام گرامی ہے جو سنجیدہ اور ممتاز نقاد و محقق ہیں اور ملک کی قدیم علمی درسگاہ “بنارس ہندو یونیورسٹی ” میں صدر شعبۂ اردو ہیں۔انہوں نے اپنی علمی و ادبی کارکردگی کے سبب شعبہ اردو کو فعال بنایااور شناخت قائم کرآئی ہے ۔ پروفیسر ابوذر عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اپنی حیات ہی میں ان علمی پودوں کو ثمر آور ہوتے دیکھا اور استاد الاساتذہ کے لقب سے سرفراز ہوئے”۔
پروفیسر ابوذر عثمانی کی اہم تصانیف میں” فنکار سے فن تک”،”اردو یونیورسٹی کے قیام کا مسئلہ”،”بمبئی اردو کنونشن-چند حقائق” اور”انجمن ترقی اردو رانچی کی سرگرمیاں” قابل ذکرہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللہ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس عطا کرے آمین