بنگلور (ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):صوبہ کرناٹک میں واقع شہربنگلور کی مرکزی ،دینی ،تربیتی اوراقامتی درسگاہ مرکزاہلسنت جامعہ حضرت بلال،ٹیانری روڈ،بنگلورمیں 811وا ں عرس غریب نوازنہایت ہی تزک واحتشا م کے ساتھ منایاگیا۔یہ جانکاری ایک پریس ریلیز کے ذریعہ دی گئی ہے۔قرآن خوانی کے بعدجامعہ ہٰذا کے طلبانے نعت ومنقبت کے گلدستے انوکھے اندازمیں پیش کئے ۔عالم نبیل،فاضل جلیل ،ماہردرسیات،خطیب باکمال حضرت مولانافیاض احمدمصباحی صاحب قبلہ(استاذ جامعہ حضرت بلال)نے آپ کی ذات وشخصیت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اولیاءکرام انبیاءعلیہم السلام کے نائب اور اللہ کے دوست ہوتے ہیںانکا مقام ومرتبہ نہاےت بلندوبالا ہے۔انہیں کی مرہون منت ہے کہ آج چراغ اسلام چہاردانگ عالم میں روشن ہے۔ صحابہ کرام کے بعداولیاءاللہ کی خدمات کااعتراف ہرکس وناکس کوہے۔انکے دربارسے سکون وقراراورروحانیت کافیض ملتاہے اورہرایک کی دلی مرادیں بفضل الٰہی پوری ہوتی ہیں۔اس لئے ہرعقیدت مندہزاروں مشقتوں کو برداشت کرکے ان کے دربارمیںپروانہ وار حاضری کی سعادتیں حاصل کرتے ہیں۔اولیاءعظام اللہ کی عطا کردہ قوت سے سنتے اور دیکھتے ہیںکیونکہ صحیح احادیث طیبہ سے ثابت ہے کہ جب میت کودفن کرکے ان کے رشتے دار چلے آتے ہیں تو میت انکی آہٹ اور چپلوں کی آواز کوسنتاہے تواولیاءکرام جوہمیشہ بحرتوحیدمیں غرق رہتے ہیںوہ بدرجہ اولیٰ سن سکتے ہیں یہی حال حضرت خواجہ غریب نواز کی بارگاہ اقدس کاہے۔انہوں نے کہاکہ سرکارغریب نوازؓ موجودہ افغانستان میں قندھارسے جانب غرب میں خراسان کے ایک گاوں سنجرمیں۴۱رجب المرجب ۷۳۵ھ میں پردہ عدم سے منصہ شہودپرجلوہ گرہوئے آپ نجیب الطرفین سیدہیں۔آپ کے والدماجدکااسم شریف حضرت غیاث الدین حسن ہے۔والدہمحترمہ کانام بی بی اُم الورع ہے اوربی بی ماہ نورسے مشہورتھیںاسی لئے آپ ؓکا والدماجدکی طرف سے سلسلہ¿ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اوروالدہ محترمہ کی طرف سے سیدناحضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جاملتاہے۔انہوںنے اپنے خطاب میں کہاکہ آپ کی عمرشریف جب ۵۱سال کی ہوئی تووالدماجدکاوصال ہوگیااورآپ سایہ¿ پدری سے محروم ہوگئے پدرِبزرگوارکے وصال پرملال کاآپ کے قلب اطہرپربڑاگہرااَثرپڑامگرآپ نے صبروشکرکادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑااورپائے استقلال میں لغزش تک نہ آنے دی انتہائی ضبط وتحمل کے ساتھ کاروان حیات کو آگے بڑھایاترکہ پدری سے ایک باغ اورایک پن چکی ملی تھی جسے آپ نے ذریعہ معاش بنایااوریوں اوقات گزربسرہونے لگی ابھی آپ ماہ وسال کے اسی فکرانگیز گردش میں تھے کہ والدہ ماجدہ کا بھی تارحیات ٹوٹ گیا اوروہ بھی واصل بحق ہوگئیں۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔انہوں نے کہا کہ آج ان کے آستانے پرملک وبیرون ملک سے بلاتفریق و مذہب وملت کے جوق درجوق لوگ کھینچے چلے آتے ہیں۔
چنانچہ کہاجاتاہے کہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم پنڈت جوہرلال نہرونے خواجہ کی بارگاہ میں جاکراس عقیدے کااظہارکیاتھا کہ ”بابااگرچہ میں وزیراعظم ہوں مگردلوں پرحکومت کرنے والے راجہ حقیقتاًآپ ہیں میں آپ سے کچھ نہیں بلکہ بھیک مانگنے آیاہوں،، انہوں نے کہاکہ حضرت خواجہ غریب نواز اشارہ غیبی اوربشارت نبوی سے ہندوستان تشریف لائے تھے۔ہمیشہ عبادت وریاضت اورمجاہدہ میں رہتے تھے ۔زہدوتقویٰ،خشیت ربانی اورتواضع انکساری کے لبادے میں تبلیغ اسلام میںآپ نے جو اہم رول ادا کیاہے اسکی مثال ملنی مشکل ہے۔زمانہ طفولیت سے آپ کی سخاوت وفیاضی کے واقعات آپ کے غریب نواز ہونے پر مہرتصدیق ثبت کرتے ہیں۔آپ کی اولاد امجادمیں سے ہرایک شریعت وطریقت کے بحرناپیداکنارہیں۔آپ کے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کوآپ پرفخرتھا۔انہوں نے کہاکہ آپ ؓ نے تبلیغ اسلام کے لئے اپنے خلفاءاورریاضت پسندمریدوں کی ایک متحرک وفعال ٹیم کواکناف ہندمیں پھیلادیاان خلفاءومریدین میں جس نے جدھرکارُخ کیاادھرسے جہالت کی تاریکیاں کافورہوتی چلی گئیںاورپھران خلفاءنے بھی اپنی مساعی جمیلہ سے رُشدوہدایت کے ایسے ایسے ماہ نجوم پیداکئے کہ جن کے ذریعہ ہندوستان کاچپہ چپہ چشتی فیضان میں نہانے لگاوہ چاہے حضرت فخرالدین گنج شکرؒہوں یامحبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیائؒ،مخدوم حضرت عبدالحق رودولویؒ ہوں یاحضرت مخدوم سمنان کچھوچھویؒ ،شاہ مینالکھنویؒہوںیاحاجی وارث علی شاہ یہ سب اپنے عہدمیں اُفق ولایت پرشمس وقمربن چمکے اورسبھی بالواسطہ یابلاواسطہ سرکارغریب نوازؓ کی بارگاہ کے خوشہ چیں ہیں اورسبھوں کاقبلہ نمااجمیرمقدس ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے اخیرمیں کہاکہ عطائے رسول سرکارغریب نوازؓ اگرچہ بظاہرنہ کسی سلطنت کے فرمارواتھے نہ جاہ وحشم کے مالک تھے محض بے سروسامانی آپ کاسرمایہ¿ زندگی اورالفقرفخریتاج شاہانہ تھا،لیکن گدڑی میں لعل کے مصداق تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کووہ بلندمقام عطافرمایاتھاجس میں آپ منفردالمثال تھے ،اگرایک طرف سلاطین زمانہ آپ کے قدم ناز پرسرِنیازخم کرنے میں فرحت وانبساط کی لہرمحسوس کرتے ،تودوسری طرف اَکابراولیاءخاکِ درِخواجہ کوسرمہ بصیرت اورتاج عزت تصورکرتے، غرض کہ امیرہویاغریب بادشاہ ہویاگداگرباطنی تصرف رکھنے والے اولیاءکاملین ہوں یاظاہری جاہ وجلال رکھنے والے اہل اقتدارسبھی آپ کی بارگاہ میں حاضرہوکرقلبی سکون حاصل کرتے رہے اورآپ کاچشمہ¿ فیضان سبھوں کوسیراب کرتارہا۔ آپ ؓنے اجمیرمقدس میں چالیس سال تک خدمت دین متین کافریضہ انجام دیااورپھر97سال کی عمرمیں ۶رجب المرجب ۳۳۶ھ مطابق 16مارچ1236ءدوشنبہ کی شب میں اس دارفانی سے رحلت فرماگئے بعدوصال لوگوں نے دیکھاکہ آپ ؓکی جبین مبارک پریہ غیبی تحریرمنقول ہے”ہٰذاحبیب اللّٰہ مات فی حب اللّٰہ“۔آپ کے دست حق پرسست پرتقریبا90لاکھ سے زائدلوگوں نے اسلام کوقبول کیا۔نمازجنازہ آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت خواجہ فخرالدین ؒچشتی نے پڑھائی اوراسی حجرہ میں آپ مدفون ہوئے جس میں آپ کاوصال ہواتھا۔
واضح رہے کہ یہ محفل جامعہ حضرت بلال کے چیرمین مجاہداہلسنت ا لحاج اے امیرجان صاحب کی سرپرستی میںمنعقد ہوئی ۔اس موقع پرحضرت قاری ذوالفقاررضانوری (خطیب وامام مسجدحضرت بلال)،مولاناماہ زماں نوری،الحاج انیس احمدخان صاحب،نوراللہ بھائی،مولاناامان اللہ مصباحی، مولانامحمدصدرعالم مصباحی،مولانافیاض احمدمصباحی،مولانامحبوب رضاصاحب،حافظ الیاس صاحب،حافظ صوفی فیاض ،طلبائے جامعہ ودیگرشریک تھے۔۔اخیرمیں صلوٰة وسلام اورمولانافیاض مصباحی صاحب کی رقت انگیز دعاءپرمحفل کااختتام ہوا۔