نئی دہلی (پریس ریلیز) بزم آگہی کی جانب سے اوکھلا کے بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر میں ڈائینمک انگلش کوچنگ سینٹر میں ہفتہ کی شام کو 6:30 بجے سے 9:30 بجے شب تک "اسلامی اقدار و حقائق کی ادبی تشکیل” کے موضوع پر ایک پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس میں مختلف تعلیمی درسگاہوں کے طلبہ و ریسرچ اسکالرز نے بھی شرکت کرکے اپنی اپنی تخلیقات بھی پیش کیں۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مشیر جناب حقانی القاسمی نے کہا کہ اسلامی اقدار اور انسانی اقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیوں کہ اسلام عظمتِ انسانیت کا سب سے بڑا پیروکار ہے۔ مذہب کی شدت پسندی سے پرہیز کرتے ہوئے ہمیں مذہب کو مذاق بننے سے بھی بچانا ہے۔ اسلام اور سائنس میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے۔ انسان سب سے بڑا وجودی بیانیہ ہے جبکہ خدا سب بڑا کہانی کار ہے، جسے ہمارے دور کے تخلیق کاروں اور کہانی کاروں کو سمجھنا بے حد ضروری ہے تاکہ ادبی تشکیل کے وقت وہ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ سکیں۔
اس پروگرام میں مہمانِ خصوصی رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبۂ اردو کے استاد ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ ادیب قدروں کو تہس نہس کر دیتا ہے جیسے راجندر سنگھ بیدی نے اپنے مشہور افسانہ لاجونتی میں انسانی اقدار کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ ہمیں اسلامی اقدار متعین کرنے کے لیے آج نئے سرے سے مطالعہ کی ضرورت ہے۔
اندرا گاندھی اوپن نیشنل یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے استاد جناب ڈاکٹر شاکر علی صدیقی مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادب کبھی بھی براہِ راست گفتگو نہیں کرتا۔ تجسّس، تخیل اور تفکر کی تثلیث کی تجسیم و تشکیل سے ادب وجود میں آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رومی، حافظ شیرازی، شیخ سعدی، خنساء، ٹی ایس ایلیٹ، شکسپیئر، اقبال، حفیظ جالندھری وغیرہ سب کے سب نے اعلیٰ پائے کے تخلیق کاروں نے مذہبی اقدار سے ادب کو بنایا سنوارا ہے۔ ادب کی تشکیل میں فن پر توجہ مرکوز رکھنا ادیب کا اولین فریضہ ہے۔
اس پروگرام میں دو افسانے، دو مضامین اور نو تخلیقات پیش کی گئیں۔
افسانہ نگار کے طور پر ڈاکٹر ذاکر فیضی نے اپنا افسانہ "ٹی او ڈی” اور عاصم بدر نے "آخری کہانی” پیش کیا۔
ممبئی سے کاشف شکیل نے "بدلہ لے لو” اور آگرہ سے سعدیہ سلیم شمسی نے "ردعمل” کے عنوان سے اپنے اپنے مضامین آن لائن پیش کیے۔ تخلیق کاروں میں ممبئی سے خان ذاکر خان، اعظم گڑھ سے ظل الرحمٰن فائق بندوی، لکھنؤ سے ابو بکر ایوب، غازی پور سے غفران حکیم نے آن لائن اپنی تخلیقات پیش کیں۔ جب کہ فیضان الحق، نسیم افضل اور ابوالاشبال نے بنفس نفیس شریک ہوکر اپنے کلام پیش کیے۔ پروفیسر کوثر مظہری کی عدم موجودگی میں ان کی ایک غزل کو ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی نے پیش کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم عبد الرحمٰن کی تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ پھر جناب محمد اشرف یاسین نے بزمِ آگہی کا مختصر تعارف اور اس کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا۔ ڈاکٹر محمد عارف نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ڈاکٹر شاداب تبسم کے کلمات تشکر پر اس پروگرام کا اختتام ہوا۔
واضح رہے کہ یہ پروگرام آن لائن اور آف لائن دونوں موڈ میں ہوا، جس میں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ و اساتذہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
جن میں کشمیر یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر امتیاز احمد تانترے، ڈاکٹر انوار الحق، ڈاکٹر عبد الرحمٰن، ڈاکٹر زاہد ندیم احسن، ڈاکٹر خان رضوان، محمد عامر، طاہر عزیز، مناظر ارشد، طارق الزماں، محمد آصف، ہاشم الدین، منزہ بیگم، شاہین فاطمہ، پرویز اعظم، ثمرین، آصفہ زینب، محمد التمش، فیض الرحمٰن وغیرہ نے بنفسِ نفیس شرکت کی۔ جبکہ دہلی، ممبئی، راجستھان، اعظم گڑھ، آگرہ، کانپور اور لکھنؤ جیسے کئی بڑے شہروں سے بہت سارے لوگوں نے آن لائن شریک ہوکر اسے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔