نئی دہلی، 18ستمبر (یو این آئی) بچوں اور نوجوان قارئین کے لیے اردو میں تخلیقی مواد تیار کرنے کے سلسلے میں سہ روزہ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب میں تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ یہ ورکشاپ اس لیے اہم ہے کہ جب ہم تعلیم یافتہ سماج کی بات کرتے ہیں تو اس کا اہم پہلو بچے اور نوجوان ہیں جن کی تربیت اور تعلیم ہماری ذمہ داری ہے بچے سماج کا اہم حصہ ہیں ان کو کیسے آگے لے جایا جائے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام صدر دفتر میں منعقدو ورکشاپ میں انہوں نے کہاکہ آج اسی مقصد کے تحت اردو کے اہم قلمکاروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ تخلیق کار اور قارئین کے درمیان رشتہ جوڑنے کی ہم کوشش کر رہے ہیں اسی کی ایک کڑی کی شکل میں اسے دیکھ سکتے ہیں، اس ورکشاپ میں کوشش ہوگی کہ اجتماعی طور پر جو نتیجہ نکلے گا اسے دلکش اور خوبصورت انداز میں 31 مارچ 2025 تک شائع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
بچوں کے بزرگ ادیب عابد سورتی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ بچوں کے لیے لکھتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کچھ نیا سیکھیں اور ان کے لیے مواد ہمیشہ نئے انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ اگر اچھا بیج بوئیں گے تو کل ہمیں اچھا پھل ملے گا،۔ ہمیشہ تحقیق اور تجسس کا عمل جاری رکھنا چاہیے اور فیکٹ سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، بغیر تحقیق کے لکھیں گے تو اس کے غلط نتائج مرتب ہوں گے۔
بچوں کی مشہور تخلیق کار اور مصنفہ مریم کریم اہلاوت نے کہا کہ بچوں کے لیے جس طرح ہم سوچتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کھانا چاہیے کیا نہیں، اسی طرح سوچا جانا چاہیے کہ ان کے لیے کس طرح کی تخلیقات اور ادب کی ضرورت ہے۔ بچپن میں جو کہانیاں سنتے ہیں اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بچوں کو چیزیں اس طرح بتانی چاہیے کہ براہ راست نہ ہو مگر بالواسطہ ان تک پیغام پہنچ جائے۔ بچوں کی کہانیاں اور میتھوڈولوجی ہماری زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔
مشہور فکشن نگار ذکیہ مشہدی نے کہا کہ بچوں کے لیے کم لکھا جا رہا ہے اور جو لکھا جا رہا ہے اس میں ایج گروپ اور نفسیات و لفظیات کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ اگر ایک عمر کی سطح کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کے تجسس کا استعمال کرتے ہوئے کہانیاں تخلیق کریں تو ان کے ذہنی ارتقا اور نشوونما میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بچوں کی کہانیوں میں تصویروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ تصویریں ہونی چاہیے، بچوں کی کہانیوں میں تشدد، فرقہ واریت اور فسادات وغیرہ موضوعات و مسائل سے گریز کرنا چاہیے، بچوں کے لیے تخلیقات لکھتے وقت ان کی تفریح طبع اور انبساط کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
اس سیشن کی نظامت ڈاکٹرشمع کوثریزدانی (اسسٹنٹ ڈائرکٹر، اکیڈمک) نے کی۔
اس موقعے پر پروفیسر غضنفر، مشتاق احمد نوری، ڈاکٹر قاسم خورشید، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا،پروفیسر ثروت خان، ڈاکٹر نگار عظیم، انیس اعظمی، ڈاکٹر محمد علیم، شاہ تاج خان، سراج عظیم، حبیب سیفی، اقبال برکی، ڈاکٹرشہناز رحمن، نہاں رباب، نثار عالم، ڈاکٹر سلمان عبدالصمد اورکونسل کے عملہ میں سے ڈاکٹر کلیم اللہ (ریسرچ آفیسر)، انتخاب عالم (ریسرچ آفیسر)،شاہنواز محمد خرم (ریسرچ آفیسر) اور ڈاکٹر مسرت (ریسرچ آفیسر)وغیرہ موجود رہے۔
لنچ کے بعد تکنیکی سیشن شروع ہوا جس میں توصیف بریلوی نے ’رومی کے سہانے دن‘، شاہ تاج نے ’پالکی‘، ڈاکٹر شہناز رحمان نے ’شان سلطانی‘، نہاں رباب نے ’ایک شخصیت ایسی بھی‘، نثار احمد نے ’پٹنہ کی سیر‘ کے عنوان سے کہانیاں سنائیں جس پر ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ یہ سہ روزہ ورکشاپ 20 ستمبر 2024 تک چلے گا۔