سہیل انجم
ابھی ہم لوگ بزرگ صحافی احمد سعید ملیح آبادی کی رحلت کا سوگ منا ہی رہے تھے کہ ایک اور بزرگ صحافی کے انتقال نے اس سوگ کو دوگنا کر دیا۔ اس صحافی کا نام رضوان اللہ فاروقی ہے۔ احمد سعید صاحب کی عمر تقریباً ۹۶ برس تھی تو رضون اللہ صاحب کی ۹۱۔ احمد سعید ملیح صاحب کا آبائی وطن ملیح آباد تھا تو رضوان صاحب کا اعظم گڑھ۔ لیکن دونوں کا میدان عمل ایک عرصے تک کلکتہ رہا۔ رضوان صاحب نے احمد سعید صاحب کے اخبار روزنامہ ’’آزاد ہند‘‘ میں بھی خدمت انجام دی تھی۔ دونوں نے کلکتہ چھوڑ دیا تھا۔ اول الذکر نے اپنے آبائی وطن ملیح آباد کو آباد کیا تو ثانی الذکر نے دہلی کو۔ رضوان صاحب نے ۱۹۷۵ء میں کلکتہ سے دہلی ہجرت کی جبکہ احمد سعید صاحب نے ابھی چند سال قبل کلکتہ کو خیرباد کہا۔ رضوان صاحب کے صحافتی کرئیر کا آغاز جولائی ۱۹۵۱ء میں روزنامہ ’’عصر جدید‘‘ سے ہوا اور وہ بھی اس طرح کہ انھیں انگریزی روزنامہ ’’اسٹیٹسمین‘‘ کے اداریے کا ترجمہ کرنا تھا۔ ایک ماہ مفت کام کرنے کے بعد اگلے ماہ سے ایک ترجمے کا ایک روپیہ معاوضہ یعنی تیس روپے ماہانہ مقرر ہوا۔ انھوں نے اگلے دس بارہ برس تک ترجمے کا یہ کام کیا۔ لیکن ان کے مطابق اس معاوضے میں امتداد زمانہ کے ساتھ کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسٹیٹسمین کے اداریے کا ترجمہ اس لیے کیا جاتا تھا کہ عصر جدید کے مالک اس کے شیدائی تھے لیکن اسے وہ اپنی زبان میں پڑھنا چاہتے تھے۔ رضوان صاحب نے عصر جدید میں اٹھارہ برس کام کیا۔ ترجمے کے علاوہ نیوز ایڈیٹنگ اور رپورٹنگ بھی کی۔ نیوز ایڈیٹنگ کا اعزازیہ پچاس روپے ماہانہ تھا۔ لیکن کسی معاملے پر وہ مالک کے عتاب کے شکار ہوئے اور جس طرح دوسرے بہت سے صحافیوں کو معمولی معمولی باتوں پر ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا تھا، انھیں بھی رخصت کر دیا گیا۔ اس سے قبل احمد سعید صاحب انھیں کئی بار اپنے اخبار میں کام کرنے کی پیشکش کر چکے تھے مگر وہ ہر بار یہ کہہ کر معذرت کرتے رہے کہ میں ایک جگہ کام کر رہا ہوں،بغیر کسی وجہ کے چھوڑنا مناسب نہیں۔ لیکن اب ایک بار پھر احمد سعید صاحب کا تقاضہ بڑھ گیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو کام کے لیے نہیں بلا رہا، آپ خالی ہیں شام کو آجایا کیجیے، بیٹھیے، ہم لوگ آپ کی صحبت سے لطف اندوز ہوں گے۔ رضوان اللہ کے مطابق ان کے اس جملے نے ان کو پگھلا دیا اور انھوں نے ۱۹۶۹ء میں آزاد ہند جوائن کر لیا۔ وہ وہاں برسوں تک سرد و گرم ماحول میں کام کرتے رہے۔ عصر جدید میں کام کے دوران ہی ان کو کلکتہ میں واقع امریکی سفارت خانہ کے دفتر یو ایس آئی ایس یعنی اس کے انفارمیشن سینٹر میں جزوقتی کام کرنے کا موقع مل گیا تھا جو آگے بھی جاری رہا۔ وہاں بھی ترجمے کا کام تھا اور تنخواہ تین سو روپے ماہانہ تھی۔ اس اضافی آمدنی نے ان کی تنگ دستی کو کسی حد تک کم کر دیا۔ آزاد ہند کے زمانے میں بھی وہ اس کے لیے کام کرتے رہے۔ ۱۹۷۵ء میں ان کا سلیکشن دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے انفارمیشن سینٹر میں بحیثیت اردو ایڈیٹر ہو گیا۔ اس طرح انھوں نے کلکتہ میں بقول ان کے چوبیس برس پاپڑ بیلنے کے بعد دسمبر ۱۹۷۵ء سے یہ نئی ذمہ داری سنبھال لی۔ لیکن اس نئی ذمہ داری کے مستقل ملازمت میں تبدیل ہونے تک انھیں کئی بار ممکنہ اخراج کے پل صراط سے گزرنا پڑا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ انھوں نے ۱۹۹۲ء تک بحسن و خوبی اس ذمہ داری کو نبھایا۔ (ان کی صحافتی خدمات پر الگ سے مضمون قلمبند کیا جائے گا)۔
انھیں کلکتہ میں تو سخت شب و روز سے گزرنا ہی پڑا تھا دہلی میں بھی برسوں تک مختلف نوعیت کی دشواریوں میں مبتلا رہنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے اصولوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ایک باصلاحیت صحافی، ادیب، شاعر اور مترجم تھے۔ اگر چاہتے تو دولت کی دیوی ان پر مہربان ہو جاتی بس ذرا سا اپنے اصولوں سے چشم پوشی کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن انھوں نے پُرآسائش زندگی کے لیے اصولوں کا گلا نہیں گھونٹا۔ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنا کام دیانتداری کے ساتھ کرنے کو ترجیح دی اور وہ اس پر تازندگی قائم رہے۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی کے بھی عالم تھے۔ تینوں زبانوں میں شاعری بھی کرتے تھے۔ امریکی سفارت خانے سے سبکدوشی کے بعد جب وہاں سے ۲۰۰۳ء میں اردو جریدہ ’’اسپین‘‘ نکلنا شروع ہوا تو انھیں بھی انگریزی مضامین کے ترجمے کی ذمہ داری سونپی گئی اور چار سال کے درمیان انھوں نے ۲۷۲ مضامین کے ترجمے کیے۔ اسی دوران ڈاکٹر ظفر الاسلام خا ں کے انگریزی ہفت روزہ ’’ملی گزٹ‘‘ میں وہ برسوں تک کالم لکھتے رہے۔ جبکہ اردو اخباروں میں بھی مضامین کا سلسلہ جاری رہا۔ زندگی کے آخری لمحات تک قلم و قرطاس سے ان کا رشتہ قائم رہا۔ ۴۸۸ صفحات پر مشتمل ان کی خودنوشت ’’اوراق ہستی‘‘ ۲۰۲۰ء میں شائع ہوئی جبکہ ۲۰۲۲ء میں ان کی تصنیف ’’تبصرات کتب‘‘ منظر عام پر آئی جو ان کی آخری تصنیف ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی کتابوں پر دوسروں کے تبصروں اور دوسروں کی کتب پر اپنے تبصروں کو یکجا کر دیا ہے۔ اس میں میری کئی کتابوں پر ان کے اور ان کی کئی کتابوں پر میرے تبصرے بھی شامل ہیں۔ جبکہ ان کی تصنیفات میں بے ادبیات، اوراق مصور، کلکتہ کی اردو صحافت اور میں، متاع سحر، شگوفے، ہماے گاؤں ہمارے لوگ اور عکس خیال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی میں ان کی چھ کتابیں ہیں۔ ان کا انتقال اردو صحافت و ادب کا ناقابل تلافی نقصان تو ہے ہی راقم الحروف کا ذاتی نقصان بھی ہے۔ وہ مجھ سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتے اور جب بھی ملاقات ہوتی انتہائی خوشی کا اظہار کرتے۔ ان سے میری شناسائی کب ہوئی یہ تو یاد نہیں لیکن ان کی محبت و شفقت یاد ہے اور ہمیشہ یاد رہے گی۔ وہ انتہائی نستعلیق شخص تھے۔ عوامی مجلسوں سے دور رہتے، گوشہ گیری کو غنیمت جانتے۔ خوش اخلاقی، ظرافت و بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور ایمانداری و دیانت داری ان کی پونجی تھی۔ہم لوگوں نے اوکھلا پریس کلب کے زیر اہتمام ان کی خدمات کے اعتراف کا پروگرام بنایا اور ان سے منظوری لینے ہم اور پریس کلب کے ایک دوسرے ذمہ دار معروف کالم نگار ڈاکٹر مظفر حسین غزالی ۱۴ ستمبر کو ان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے۔ ان کے سامنے عرض مدعا کیا لیکن اپنی شرافت نفسی اور چمک دمک سے دور رہنے کے مزاج کی وجہ سے انھوں نے دست بستہ معذرت کر لی۔ ہم نے ان کی سب سے چھوٹی صاحبزادی اور شعبۂ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد ڈاکٹر زہرافاروقی اور ان کے ایک نواسے محمد طارق کی بھی خدمات حاصل کیں لیکن وہ کسی بھی قیمت پر راضی نہیں ہوئے۔ بالآخر اس تاریخ کے آنے سے قبل ہی وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان کے حالات زندگی گواہی دیتے ہیں کہ وہ تاعمر سخت حالات کے شکار رہے۔ تین سال قبل ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا۔ دو سال قبل ان کی پانچ بیٹیوں میں سے چوتھی بیٹی کا، جو کہ اسی محلے یعنی ابوالفضل انکلیو میں رہتی تھی اور ان کی سب سے زیادہ خدمت کرتی تھی اور ۲۰۲۰ء میں ان کے سب سے چھوٹے بھائی پروفیسر فیضان اللہ فاروقی کا انتقال ہوا۔ فیضان اللہ جے این یو کے شعبۂ عربی سے سبکدوش ہوئے تھے۔ ایک بھائی پہلے ہی چل بسے تھے۔ رضوان صاحب اولاد نرینہ سے محروم تھے۔ ان کے عزیز اور اردو دنیا کی قد آور شخصیت شمس الرحمن فاروقی کا دسمبر ۲۰۲۰ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ دنوں سے محمد طارق ان کے مکان میں مع اہل و عیال اقامت پذیر تھے۔ وہی لوگ ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ رضوان صاحب نے کئی بار اپنے اس کرب کا اظہار راقم الحروف سے کیا کہ میں نے زندگی میں بہت دکھ جھیلے ہیں۔ کلکتہ کے اخباروں میں موم بتی کی طرح جل جل کر اپنی زندگی کی پونجی لٹا دی۔ انتقال سے قبل ان کی اہلیہ کی یادداشت چلی گئی تھی تاہم وہ صرف اپنے شوہر کے ہاتھوں ہی کھانا کھاتی تھیں۔ ان کی رحلت کے بعد انھوں نے بارہا کہا کہ سہیل صاحب اب تو میں بالکل تنہا ہو گیا ہوں۔ تنہائی کے عذاب سے نجات پانے کے لیے انھوں نے خود کو لکھنے پڑھنے میں غرق کر دیا تھا۔ ادھر ایک ڈیڑھ ماہ سے مختلف عوارض نے جسمانی ضعف بڑھا دیا تھا۔ اسی شکست و ریخت کے عالم میں انھوں نے آٹھ اکتوبر کو اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند لیں۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔
sanjumdelhi@gmail.com