سری نگر(یو این آئی) پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے رائے دہندگان کی رجسٹریشن کے متعلق جاری تازہ حکمنامے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جموں میں حکومت ہند کے نوآباد یاتی نظام کے پروجیکٹ پر کام شروع ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا پہلا دھچکا ڈوگرہ ثقافت، شناخت، روزگار اور تجارت کو پہنچے گا۔ موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار بدھ کو اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ٹویٹس میں کیا۔
ECI’s latest order for registration of new voters makes it clear that GOIs colonial settler project has been initiated in Jammu. They will bear the first blow to Dogra culture, identity, employment & business. pic.twitter.com/ZX9dOSEWx1
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) October 12, 2022
انہوں نے یہ ٹویٹس ضلع انتظامیہ جموں کے اس حکمنامے کے رد عمل میں کئے جس کے مطابق ریونیو کو اہلکاروں کو ان غیر مقامی لوگوں کو بھی ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جو جموں میں ایک سال کے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔ محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹ میں کہا: ’الیکشن کمیشن آف انڈیا کے نئے ووٹروں کی رجسٹریشن کے بارے میں جاری تازہ حکمنامے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت ہند کا جموں میں نوآبادیاتی نظام کے پروجیکٹ کا کام شروع ہوا ہے‘۔ انہوں نے اس ٹویٹ میں کہا کہ اس سے سب سے پہلا دھچکا ڈوگرہ ثقافت، شناخت، روز گار اور تجارت کو پہنچے گا۔ موصوفہ نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا: ’بی جے پی کی جموں اور کشمیر کے درمیان مذہبی و علاقائی بنیادوں پر ڈالی جانی والی پھوٹ کی کوششوں کو ناکام بنایا جانا چاہئے کیونکہ چاہئے وہ کشمیری ہو یا ڈوگرہ،ہمارے حقوق اور شناخت کا تحفط تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم ایک ہو کر جد وجہد کریں گے‘۔
دریں اثنا جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس نے بھی اس حکمنامے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ میں ضلع انتظؓامیہ جموں کے اس حکمنامے کو مشکوک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حکمنامہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ٹویٹ کرکے کہا ہے: ’ضلع مجسٹریٹ جموں کا حالیہ حکمنامہ، جس میں ریونیو اہلکاروں کو جموں میں ایک سال کے عرصہ سے زیادہ مدت سے مقیم غیر مقامی باشندوں کو رہائشی سند اجرا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے،مشکوک ہے اوراس کا مقصد انہیں ووٹ ڈالنے کے اہل بنانا ہے‘۔ ٹویٹ میں کہا گیا: ’یہ حکمنامہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ہے اور ہمارے شبہات کو غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری ایک بار پھر الیکشن کمیشن اور جموں و کشمیرانتظامیہ پر عائد ہوجاتی ہے، وہ یہ واضح کریں کہ کیا اس قسم کی ہدایت جائز ہے‘۔