غزہ(ایجنسیاں)اسرائیلی فورسز کے وحشیانہ حملوں کے 175روز مکمل ہوگئے۔ عرب میڈیا کے مطابق غزہ سے فلسطینی میڈیا آفس نے اپنے بیان میں کہا کہ 7 اکتوبر سے ابتک اسرائیلی فورسز نے غزہ کی پٹی میں 2 ہزار 888 وحشیانہ حملے کیے۔فلسطینی میڈیا آفس کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 39 ہزار 623 فلسطینی شہید اور لاپتہ ہوگئے۔ شہدا میں 14 ہزار 350 بچے اور 9 ہزار 460 خواتین شامل ہیں۔میڈیا آفس کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 32 ہزار 623 شہیدوں کی لاشیں اسپتالوں میں منتقل کی گئیں۔ فلسطینی میڈیا آفس کے مطابق اسرائیلی حملوں میں زخمیوں کی تعداد 75 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ میڈیا آفس کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 364 طبی کارکنان، 48 امدادی کارکنان اور 137 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس جنگ سے صرف فلسطین ہی تباہ ہوا ہے،بلکہ خود اسرائیل کی بھی کمر ٹوٹ چکی ہے ،جو کہ امریکہ اور اس کے دوسرے اتحادی ممالک کے سہارے یہ جنگ لڑ رہا ہے۔ اس درمیان خبر ہے کہ اسرائیل کی عدالتِ عظمیٰ بہت سے الٹرا آرتھوڈوکس مردوں کے لیے حکومتی سبسڈی ختم کرنے کا حکم دیا جو فوج میں خدمات انجام نہیں دیتے – یہ ایک ایسا زبردست اور غیر معمولی فیصلہ ہے جس کے حکومت اور ان دسیوں ہزار مذہبی مردوں کے لیے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں جو لازمی فوجی سروس میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں۔وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کو اپنی حکومت کے لیے ابھی تک کے سنگین ترین خطرے کا سامنا ہے۔ وہ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کے دنوں میں جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ متزلزل قومی اتحاد کی حکومت میں فوجی خدمات کے حوالے سے انہیں ایک بڑی تقسیم کو ختم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
ان کے اتحاد کے اندر نیتن یاہو کے دیرینہ شراکت داروں پر مشتمل الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں کا طاقتور بلاک چاہتا ہے کہ ڈرافٹ استثنیٰ جاری رکھا جائے۔ان کی جنگی کابینہ کے مرکزی ارکان جو کہ دونوں سابق فوجی جرنیل رہے ہیں، نے اصرار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف جنگ کے دوران اسرائیلی معاشرے کے تمام شعبے یکساں حصہ لیں۔اگر الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیاں حکومت چھوڑ دیں تو ملک نئے انتخابات پر مجبور ہو جائے گا جبکہ جنگ کے دوران نیتن یاہو انتخابات میں نمایاں طور پر پیچھے ہیں۔
زیادہ تر یہودی مردوں کے لیے فوج میں تقریباً تین سال خدمات انجام دینا ضروری ہوتا ہے جس کے بعد سالوں کی مخصوص ڈیوٹی ہوتی ہے۔ یہودی خواتین دو سال کی لازمی خدمات انجام دیتی ہیں۔لیکن سیاسی طور پر طاقتور الٹرا آرتھوڈوکس جو اسرائیلی معاشرے کا تقریباً 13 فیصد ہیں، روایتی طور پر مذہبی مدارس میں کل وقتی تعلیم حاصل کرتے ہوئے استثنیٰ حاصل کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اس دورانیہ میں 500 سے زیادہ اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیل کی عدالتِ عظمیٰ نے موجودہ نظام کو امتیازی قرار دیتے ہوئے حکومت کو نیا لائحہ عمل پیش کرنے کے لیے پیر تک اور اسے منظور کرنے کے لیے 30 جون تک کا وقت دیا ہے۔ نیتن یاہو نے جمعرات کو کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے عدالت سے 30 دن کی توسیع کی درخواست کی۔عدالت نے فوری طور پر ان کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ لیکن اس نے ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا جس میں حکومت کو ان مذہبی طلباء کے لیے ماہانہ سبسڈی دینے سے روک دیا گیا جن کی عمریں 18 سے 26 سال کے درمیان ہیں اور انھیں گذشتہ ایک سال میں فوج کی جانب سے التواء نہیں ملا تھا۔ یکم اپریل سے فنڈز منجمد کر دیے جائیں گے۔اسرائیل کے چینل 12 ٹی وی کے مطابق اس فیصلے سے مدارس کے 180,000 طلباء میں سے تقریباً ایک تہائی متأثر ہوں گے جو حکومت سے کل وقتی تعلیم کے لیے سبسڈی حاصل کرتے ہیں۔ چینل نے کہا کہ سبسڈیز کو عارضی طور پر گورننگ اتحاد کے صوابدیدی فنڈز کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔نیتن یاہو کے اعلی سیاسی حریف اور تین رکنی جنگی کابینہ کے رکن بینی گانٹز نے عدالت کے فیصلے کی تعریف کی اور کہا کہ اس نے "ایک مشکل جنگ کے دوران فوجیوں کی ضرورت کو تسلیم کیا اور ہمارے معاشرے میں ہر ایک کے لیے ملک کی خدمت کرنے کے حق میں حصہ لینے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔”
اسرائیل کی یہودی اکثریت میں لازمی فوجی خدمات کو زیادہ تر تبدیلی کے ایک عمل اور زندگی کے ایک اہم مرحلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور فوج نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کی وجہ سے وہ افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے۔الٹرا آرتھوڈوکس کہتے ہیں کہ فوج میں ضم ہونے سے ان کے نسلوں پرانے طرزِ زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور یہ کہ ان کا متقی طرزِ زندگی اور یہودی احکام کی پاسداری کے لیے لگن بھی اسرائیل کی اتنی ہی حفاظت کرتی ہے جتنا کہ ایک مضبوط فوج۔مذہبی رہنماؤں نے انتہائی آرتھوڈوکس مردوں کو فوج میں شامل کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا ہے اور ماضی میں بھی ایسی ہی کوششوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا ہے۔الٹرا آرتھوڈوکس شاس پارٹی کے سربراہ اریہ درعی نے عدالت کے فیصلے کو "یہودی ریاست میں تورات کے طلباء کی بے مثال غنڈہ گردی” قرار دیا۔سپریم کورٹ کو توسیع کی درخواست پر مبنی اپنے خط میں نیتن یاہو نے کہا، معاہدے پر پہنچنے کے لیے اضافی وقت درکار ہے "کیونکہ ماضی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کسی متفقہ انتظام کے بغیر اندراج کا دراصل الٹا اثر ہوتا ہے۔”