پھلواری شریف (پریس ریلیز)آل انڈیا ملی کونسل کے ایک وفدنے اس کے قومی نائب صدر مولاناانیس الرحمن قاسمی کی قیادت میں بہار شریف کے فساد زدہ علاقے کا دورہ کیا، اس نے پایا کہ حالات معمول پر آرہے ہیں،آج لوگوں کی دکانیں کھلی ہوئی نظر آئیں،یہ محسوس ہوا کہ مقامی عام لوگوں میں کوئی تناؤ نہیں ہے، 30/اور31مارچ کو بہار شریف میں رام نومی کے جلوس کے دوران جن لوگوں نے دکانوں کو جلایا،لوٹا،لوگوں کو زخمی کیا، وہ زیادہ تر بہار شریف کے مضافات کے لوگ تھے،جنہیں بجرنگ دل اوردوسرے شرپسندوں نے منصوبے کے تحت بلایا تھا، یہ بھی لوگوں نے بتایا کہ یہ واقعہ دن میں شروع ہوا اورسورج ڈوبنے کے بعد آٹھ بجے شب تک لوٹ مارہوتا رہا،ان میں بڑے اداروں،کاروباری مراکز، ہوٹلس اورٹرانسپورٹس کو نقصان پہونچایا گیا، مدرسہ عزیزیہ کی سوسالہ لائبریری کی کتابیں جلا کر راکھ کردی گئیں، جن میں قرآن مجید، تفسیر،احادیث، فقہ اوردیگر علوم اسلامیہ کی کتابیں تھیں، طلبہ کے ریکارڈ،آفس اوران کی رہائشی روم کو جلادیا گیا، عمارتوں کوایسا نقصان پہونچا،جو مستقبل میں بغیر مرمت کے استعمال میں نہیں آسکتا،ہوٹل ایشیا کوجلانے کی پوری کوشش کی گئی اورجب اس کا گیٹ نہیں ٹوٹ پایا تو اس کے تمام کھڑیوں کے شیشے پتھروں سے مار کر شر پسندوں نے توڑ ڈالے،سیٹی پیلیس کو اندر سے پوری طرح جلا کر ناقابل استعمال بنادیا، کتنے ہی لوگوں کی دکانوں کو لوٹ لیا۔
خاص طورپر ڈیجیٹل انڈیا جیسے بڑے مول کے تمام سامان کمپیوٹر وغیرہ لوٹے گئے اوریہ سب کچھ یک طرفہ ہوا، جب کہ اسی روڈ پر انجمن اسلام کے نمائندے لہیری تھانہ سے دوسومیٹر دوری پر رام نومی کے جلوس میں شامل لوگوں کے لیے شربت پلانے کا کام کررہے تھے، لیکن جن کوپلا رہے تھے انہیں نے تھوڑی دیر کے بعد واپسی پر ان کے پانچ ذمہ داروں کو مارا،پیٹا،زخمی کیا،سر پھاڑے اوریہ سب یک طرفہ ہوا۔ رمضان کے روزے کے لیے افطار اورنمازمیں مسلمان عام طورپر مشغول تھے اوران کی دکانوں کو پولیس کی موجودگی میں شرپسند چن چن کر جلا رہے تھے، انہوں نے مدرسہ عزیزیہ سے منسلک مارکیٹ میں بھی یہی کیا،بعض جگہوں پر مساجد کو نقصان بھی پہونچایا، اگر مسلمان اپنے صبر وضبط کو کھو دیتے اورمڈبھیڑ ہوتی تو یہ فساد بڑے پیمانے پر پھیلتا،لیکن مسلمانوں نے انتہائی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا، پیس کمیٹی کے افراد سڑکوں پر موجود تھے،لیکن شرپسندوں نے ان کو بھی نہیں بخشا،وفد نے یہ محسوس کیاکہ لہیری تھانہ کے انچارج نے انتہائی غفلت اورلاپرواہی کاثبوت دیااورتھانے کے آس پاس یہ واقعات انجام پائے۔ وفد نے متاثرین سے ملاقات کی، چند ہزارروپے سے لے کر پانچ پانچ کروڑ تک کے کاروبار کونقصان پہونچا،حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ شرپسندوں کی گرفتاری کو تیز کرے، لہیری تھانہ کے انچارج کو فوراً وہاں سے ہٹائے،اکثر جگہوں پر سی سی ٹی وی میں شرپسندوں کے حلیے موجود ہیں، جس سے پوری شرانگیزی کی عکاسی ہوتی ہے، آل انڈیا ملی کونسل نے رام نورمی سے تین دن پہلے ایک ویبنار اوراخباری بیان کے ذریعے بہار کی حکومت،انتظامیہ اورپورے ملک کے حکومتوں کو متوجہ کیا تھا کہ گزشتہ چند برسوں سے رام نومی کے جلوس کے بہانے اقلیتی علاقوں میں فرقہ وارانہ فساد کرائے جاتے ہیں اوراقلیتوں کی جان ومال کو نقصان پہونچایا جاتا ہے، اس لیے اس کی روم تھام کی جائے۔ مگر افسوس ہے کہ صوبے بہارکے اہم شہر بہار شریف اورسہسرام میں انتظامیہ نے جلوس نکالنے والوں کو اس معاملے میں چھوٹ دی اورسختی سے گریز کیا،جس کی وجہ سے غیر معمولی نقصان پہونچا، ملی کونسل کے اس وفد میں ضلع پٹنہ کے جنرل سکریٹری نشاط اعظم صاحب،آل انڈیا ملی کونسل کے رکن الحاج سلام الحق صاحب،ضلع نالندہ کے صدر جناب قدرۃ اللہ صاحب اورشوشیت انقلاب پارٹی کے سابق بہار پردیش کے صدر اشتیاق احمد راستی صاحب تھے۔اس وفد کے علاوہ جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر فیض احمد قادری صاحب کا وفد بھی اس جائزہ میں شامل تھا۔(1)اس وفد کا مطالبہ ہے کہ حکومت تمام متاثرین کا صحیح سروے کر کے مکمل معاوضہ دے۔(2)زخمیوں کا علاج کرائے اوران کو معاوضہ ادا کرے۔(3)اس فساد کی جانچ صحیح طورپر کرائی جائے اورتمام ہی شرپسندوں کو سزادی جائے۔(4)مدرسہ عزیزیہ کی عمارت کو غیر معمولی نقصان پہونچاہے اس لیے حکومت اقلیتی وزارت کی طرف سے نئی عمارتوں کی تعمیر کرائے۔