امروہہ (اسٹاف رپورٹر ) بزم شعراے اہل بیت امروہہ کے زیر اہتمام ایک طرحی شعری نشست شانِ حیدر بیباکؔ امروہوی کے اعزاز میں برمکا ن ڈاکٹر لاڈلے رہبر ؔ امروہوی محلہ گزری میںزیر صدارت سراج نقوی امروہوی منعقد ہوئی۔ تلاوت کلام پاک شہریار عمران سلمہ نے کی۔نعت سرور کائنات فیضی ؔ امروہوی نے پیش کی۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر لاڈلے رہبرؔنے انجام دیے ۔ مہمان خصوصی کے طور پر مسرور جوہرؔ امروہوی نے شرکت کی ۔شعراء نے اپنے کلام مصرعہ طرح پر پیش کئے ’’مصروف ہم بہت ہیںمگر بے خبر نہیں۔‘‘ نشست میں بزم شعرائے اہلِبیت کی جانب سے شان حیدر بیباکؔ کو شہر یا ر ادب ایوارڈ سے نوازہ گیا ۔ پروفیسر مہتاب علی نے شان حیدر بیباکؔ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا’’شان حیدر بیباکؔ نے جس انداز کی نعت گوئی اور منقبت کی تخلیق کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ان کی شاعری بہت سی خصوصیات کی حامل ہے‘‘۔ سپاس نامہ حسنؔ امروہوی صدر بزم شعرائے اہلبیت نے پڑھا۔ لیاقتؔ امروہوی سرپرست بزم نے مہمانان کی گل پوشی کی ۔ منتخب کلام پیش خدمت ہے۔
اللہ رے تصوّر صحرائے تشنگی
دریا پہ خیمہ زن ہوں مگر ہونٹ تر نہیں
مسرور جوہرؔ امروہوی
جس دم وہ مجھ سے عہدِ وفا بھول کر چلے
وہ لمحہ بھول جاؤں نہیں لمحہ بھر نہیں
مرزا ساجدؔ امروہوی
نوشہؔ ہمیں خبر ہے کہ قابیل کون ہے
مصروف ہم بہت ہیں مگر بے خبر نہیں
مطاہر حسین نوشہؔ
ہمدم نہیں انیس نہیں چارہ گر نہیں
کس کو سنائیںحال کوئی معتبر نہیں
شان حیدر بیباکؔ
افسوس یہ ہے با خبر ہونے کے با وجود
حالات حاظرہ پہ ہماری نظر نہیں
واحدؔ امروہوی
ظلم و ستم کا دور ہے کس کو خبر نہیں
ہو اتحاد اس پہ کسی کی نظر نہیں
ثمر مجتبیٰ ثمرؔ امروہوی
شیشے میں تجھ کو دیکھوں مگر تو دکھائی دے
شیشہ گروں کے پاس بھی ایسا ہنر نہیں
حسن امام حسنؔ امروہوی
مصروفیت کا اب تو یہ عالم ہے دوستو
بچوں کی تربیت پہ کسی کی نظر نہیں
ڈاکٹر لاڈلے رہبرؔ
حق پر ہوں حق پرست ہوں حق کا نقیب ہوں
میں سیدھا چل رہا ہوں اِدھر اور اُدھر نہیں
لیاقتؔ امروہو ی
راہِ حیات پر مری رفتار کے سبب
تنہا میں چل رہا ہوں کوئی ہمسفر نہیں
ڈاکٹر جمشیدؔ کمال
آلودگی اُچھالی گئی خوب میری سمت
دھبّہ مگر کوئی مری دستار پر نہیں
ڈاکٹر مبارکؔ امروہوی
تفریح کا یہ شوق بھی کتنا عجیب ہے
ہے روزِ عید اور کوئی اپنے گھر نہیں
شیبان ؔ قادری
اب اس کو کیا بتائیں تری بزم سے ہمیں
جانا تو ہے ضرور مگر اپنے گھر نہیں
احمد رضا فرازؔ
ہاتھ اس لئے دعا کو اُٹھاتے نہیں کبھی
ہم جانتے ہیں اپنی دعا میں اثر نہیں
ڈاکٹر ناصرؔ امروہوی
آخر مزاج کیسے چمن کا بدل گیا
پھولوں میں رنگ کوب ہیں خوشبو مگر نہیں
نوازشؔ سرسوی
تیرے لئے فرازؔ یہ اچھی خبر نہیںکوئی
تجھ سا شہر میں بھی آشفتہ سر نہیں
اشرف فرازؔ امروہوی
کیا اس سے بڑھ کے ہوگی کوئی بات خوفناک
اک نبدہ خدا کو خدا کا بھی ڈر نہیں
رضوان ؔ امروہوی
شاداب باغ کو مرے کس کی نظر لگی
فصلِ بہار میں بھی شجر پر ثمر نہیں
کوکبؔامروہوی
اے بے خبر زمانے تجھے کیا خبر نہیں
ہم معتبر نہیں تو کوئی معتبر نہیں
شہاب انور ؔ
سمجھا چکے ہیں شہر کے سب محترم ہمیں
یعنی نصیحتوں میں کسی کی اثر نہیں
فراز عرشی فرازؔ
کیوں ڈھونڈتے ہیں راہ میں ہم اپنا ہمسفر
جب آخری سفر کا کوئی ہمسفر نہیں
زید بن علی زیدؔ امروہوی
رندوں کو ہوش آنے لگا کیا غضب ہوا
ثاقی تری شراب میں اب وہ اثر نہیں
ضیاء ؔ کاظمی
کیسے قدم بڑھیں گے بھلا ظلم کے خلاف
پاؤں تو سب کے پاس ہیں عزمِ سفر نہیں
وفا عباس وفاؔ امروہوی
عشق نبیؐ کی راہ سے جس کا گزر نہیں
قسمت میں ایسے شخص کی روشن سحر نہیں
فیضیؔ امروہوی
جس کی دعا کا سایہ کبھی سوکھتا نہیں
ماں باپ جیسا کوئی جہاں میں شجر نہیں
شاندارؔ امروہوی
نشست میں اقبال احمد، صفدر عباس پارے ،ماسٹر ولایت علی ، ، ماسٹر تبارک علی ، ،منظور زیدی ڈاکٹر چندن نقوی ، حسن بن علی رضن، ماسٹر افضال محمد ،ماسٹر شان مجتبیٰ، ڈاکٹر شارق ریاض ،حیدر رضا پرو،اشہر علی ، رامش ولی ،تاجدار مجتبیٰ ، ارمان حیدر ساحلؔ، عامر عباس، عباس رضا ، ضیاء حیدر، غلام حیدر ، شبیب حیدر، وسیم عباس زیدی ، حسین امام ، سبطِ سجاد ، عنایت علی کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود رہے ۔آخر میں کنوینر زیدؔ امروہوی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔