نئی دہلی:پروفیسر نجمہ اختر،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہدایت پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فائن آرٹ کے طلبا اور فیکلٹی اراکین نے اپنی تخلیقیت اور فن کاری کے بہترین اظہار کے لیے یونیورسٹی کیمپس میں مختلف مقاما ت پر مجسمے اور آرٹ ورک نصب کیے ہیں۔انھوں نے آرٹ کے نمونوں کی تنصیب سے ان مقامات میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ہے جوفکر انگیز ہونے کے ساتھ تحریک ز ا بھی ہیں۔آرٹ کے نمونوں کی تنصیب سے صرف کیمپس کی جمالیاتی اہمیت میں چار چاندنہیں لگے ہیں بلکہ طلبا،فیکلٹی اراکین اور زائرین کے درمیان آرٹ اور تہذیب کے سلسلے میں بامعنی گفتگو کو بھی راہ دی ہے۔
جامعہ کیمپس میں مجسموں کی تنصیب فیکلٹی آف فائن آرٹ کے شعبہ مجسمہ سازی کے فعال،سرگرم اور مخلص رکن پروفیسر میر امتیاز کی سربراہی والے ایک اہم پروجیکٹ کی پہل کے ساتھ شروع ہوئی ہے۔پروجیکٹ کا مقصد طلبا کو اپنے کاموں کو پبلک کے درمیان لے جانے اور ان کی نمائش کے لیے حقیقی تجربہ فراہم کرنا تھا۔پروجیکٹ کو یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبا کی طرف بھر پور تعاون ملا جس سے کہ اشتراکی اور حوصلہ افزا ماحول کی تشکیل ہورہی ہے۔
آرٹ کے بچوں کی مجسمہ سازی میں اسٹائل،مواد اور مرکزی خیال کا تنوع ہے جو ابھرتے ہوئے فن کاروں کی صلاحیت اور ان کی ہمہ جہتی کو اجاگر کرتاہے۔ہر مجسمے کو اس کے ماحول کی تکمیل،آرٹ اور فطرت کے درمیان مناسب امتزاج پیداکرنے کے لیے انتہائی احتیاط سے منتخب کیا گیا تھا۔کچھ ایسے مجسمے تھے جو اختراعیت کا جشن منارہے تھے جب کہ چند مجسمے اور آرٹ کے نمونے ایسے تھے جو انسان کے جذبات کی پیچیدگیوں سے پردے اٹھارہے تھے اور کچھ تاریخی ہستیوں اور تہذیبی وراثت کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے۔
کیمپس کے عام مقامات پر مجسموں کی تنصیب سے جامعہ کیمپس کی کایا پلٹ گئی۔جامعہ کیمپس کے وہ مقامات جو سادہ اور معمولی تھے اب مجسموں کی تنصیب سے ان مقامات نے لوگوں کے ساتھ بات چیت اور غور و فکر کو دعوت دی ہے۔شیخ الجامعہ کے دفتر کے سامنے سبزہ زار پر غروب آفتا ب کے وقت آرٹ نمونے کا سحر آفریں منظر ہوتاہے۔ ان سنجیدہ اورمتین باغیچوں میں نرم اور ملائم پتھر والے مجسمے رکھے گئے جو زائرین کو فطرت و قدرت کے متعلق دعو ت غور وفکردیتے ہیں۔اس پروجیکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اب یونیورسٹی برادری اس سلسلے میں دلچسپ گفتگو باتیں کررہی ہے۔
آرٹ کے نمونوں کی تنصیب سے کیمپس میں مذاکرات اور انہماک کی ایک نئی سطح کا آغاز ہوا ہے۔فائن آرٹ کے طلبا مجسموں کی تنصیب کے دوران اپنے ساتھیوں کے ساتھ اور اپنے اساتذہ سے سرگرمی کے ساتھ باتیں کررہے تھے اور انھیں آرٹ کے ہر نمونے سے متعلق اس کے پس پردہ تصور کو واضح کررہے تھے۔اس مذاکرات سے صرف آرٹ ورک کی وسیع تر تحسین شناسی کاکام نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے عمدہ اور شاہ کار نمونوں کے تخلیقی پروسیس کی گہری سمجھ اور سخت محنت کو بھی فروغ ملتاہے۔
جمالیاتی اپیل سے قطع نظر مجسموں کی تنصیب نے یونیورسٹی کی تہذیبی و تعلیمی فضا کو متمول بنایاہے۔کیمپس کے یہ مقامات پروگراموں اور آرٹ، تہذیب اور تخلیقیت پر بات چیت کے لیے گفتگو کا نقطہ آغاز ثابت ہورہے ہیں۔یونیورسٹی نے آرٹ میلوں اور ورکشاپ کابھی اہتمام کیا اور اس میں مشہور و معروف فن کاروں کا مدعو کیا کہ وہ اپنی بصیرت ساجھا کریں اور طلبا کے ساتھ اشتراک سے فنی کھوج کے ماحول کو فروغ دے سکیں۔
ان مجسموں کے اثرات صر ف کیمپس کے احاطوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ کیمپس کے باہر بھی اس کے اثرات پہنچ رہے ہیں۔مقامی کمیو نی ٹی کے اراکین اور زائرین نے بھی مجسموں کی تنصیب کے عمل میں دلچسپی لی ہے اور کیمپس میں لگے ہوئے مجسموں کے دیکھنے کے لیے مختلف پس منظروں کے لوگ آرہے ہیں۔مجسموں نے یونیورسٹی اور آس پاس کی آبادی کے درمیان ایک پل کا کام کیاہے جس سے رہنے والوں کے درمیان فخر اور ایک تعلق کا فروغ ہوا ہے۔
فیکلٹی آف فائن آرٹ کے طلبا اور فیکلٹی کا خلوص اور ان کے تخلیقی وژن نے کیمپس کی معمولی جگہوں کو غیر معمولی فنی مناظروالی جگہوں میں تبدیل کردیا ہے جس سے ادارے کا تہذیبی تانا مضبوط ہواہے۔ اتحاد،تحریک اور بامعنی مذاکرات کے آغاز کے لیے یہ مجسمے آرٹ کی قوت کا ایک بڑا ثبوت ہیں۔بطور فن کا رکے ان بچوں نے یونیورسٹی کیمپس پر ناقابل انکار اثرات چھوڑے ہیں اور فنی اظہار کے لامحدود مواقع کی تلاش کے لیے نئی نسل کو اپنے آرٹ کے نمونوں سے تحریک دی ہے۔