با نی و مہتمم جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی تدفین آبائی وطن میں آج بعد نماز عصر ہوگی
نئی دہلی: معروف عالم دین علامہ مقبول احمد سالک مصباحی انقال فرماگئے۔ بانی و مہتمم جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی دہلی میں داخل اسپتال تھے،جہاں انہوں نے اس دار فانی کو الوداع کہہ دیا۔ موصوف کا تعلق لال پور ضلع مہراج گنج یوپی سے ہے،جہاں خبروں کے مطابق آج ان کی آخری رسوم کی ادائیگی بعد نماز عصر ہوگی۔ علامہ سالک کا شمارعظیم محقق ، مبلغ، محرر، مصنف ، مقررمیں ہوتا ہے،جن کے فیض یافتگان کی بڑی تعداد آج سوگوار ہے۔ ہندوستان کے کئی بڑے مدارس کے استاذ کی حیثیت سے بھی آپ نے اپنی خدمات انجام دیں اور پھر دہلی میں جامعہ قطب الدین بختیار کاکی قائم فرماکر کر دہلی میں دینی خدمات انجام دیتے رہے ۔ مولانا گزشتہ چند دنوں سے سخت بیمارتھے اور ہاسپیٹل میں ایڈ مٹ تھے لیکن زندگی نے وفا نہیں کیا اور ہزاروں چاہنے والوں کو اشک بار چھوڑ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ ہندوستان کا اہل علم کا طبقہ علامہ سالک کی ذات سے اچھی طرح واقف ہے ۔ اہل علم کے درمیان علامہ سالک مصباحی کو بڑی مقبولیت حاصل تھی ۔ علامہ نے بڑی گران قدر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں ۔
مولانا موصوف نے انیس سو نوے میں الجامعۂ الاشرفیہ مبارک پور سے فارغت حاصل کی تھی.بعد ازاں انہوں نے انیس سو اکیانوے چورانوے تک دارالعلو م لندوۂ العلما لکھنؤ سے عربی زبان و ادب کی اعلی تعلیم حاصل کی اور عالیہ ثالثہ عربی ادب اور قسم التخصص فی الادب العربی کے دو کورسس اعلی امتیازی پوزیشن سے پاس کئے.موصوف نے انیس سو چورانوے سے الجامعۂ الاشرفیہ مبارک.پور میں عربی زبان و ادب کی تدریسی خدمات انجام دینا شروع کیااور ستانوے تک یہ سلسلہ چلا۔انیس سو اٹھانوے اور ننانوے میں جامعہ مرکز الثقافۂ السنیہ کالی کٹ کارندور کیرالا میں عربی زبان وادب کے نہ صرف سینیر استاذ مقرر ہوئے بلکہ عربی ادب کے شعبے کو منظم کیا.اور اس سلسلے میں نئی بیداری پیدا کی.انیس سو اٹھانوے سے دو ہزار دو تک موصوف کو جامعہ حضرت نظام الدین اولیا میں خدمت کا موقعہ ملا،جس میں اس کے نصاب تعلیم کی تجدید کی اور انتیائی معمولی مشاہرے پر زاہدانہ طریقے سے اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ موصوف کے مطبق جامعہ ازہر مصر سے الحاق کا جب مسئلہ آیاتو انہوں نے جی جان لگا گراس معاملے کو آگے بڑھایا،جس میں انہیں.علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ کی مستجاب دعائیں رہیں اور شیخ ابوبکر کی کوششیں بھی شامل رہیں۔موصوف کے دوست اور جامعہ ہذا کے سابق استاذ محمد حسین خان ندوی کے سعی پہیہم سے ازہر کا دروازہ کھلا۔ علامہ کے بقول غالبا جامعہ حضرت نظام الدین اولیا کیرالا کے بعد اہل سنت کا دوسرا خوش قسمت تعلیمی ادارہ تھا جہاں سے مرحوم کی پرنسپل شپ کے دور میں اہل سنت وجماعت کے فضلا کا پہلا قافلہ جامعہ ازہر کی فضاؤں میں پہنچا۔بہرحال مولا موصوف کے جسد خاکی کو آبائی وطن لایاجارہاہے ،جہاں آج ان کی تدفین ہوگی۔