نئی دہلی : امام المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا۲۰۵ واں سالانہ عرس مبارک صاحبزادہ محمد اسید احمد کے زیر سرپرستی بمقام آپ کے آستانہ واقع مہندیان قبرستان عقب دہلی گیٹ منعقد ہوا۔ عرس کا آغاز قل پاشی اور چادر پوشی کے ساتھ ہوا، بعدہ قل شریف ، نعت و منقبت کے بعد مولانا ظفر الدین برکاتی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی عظمت اور رفعت کیا ہے اس کا اندازہ تاریخ کا مطالعہ کرنے پر ہوتا ہے۔ انھوںنے کہاکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اور امام ربانی مجد د الف ثانی نے اس ملک میں جس جہت اور طریقہ سے کام کیا۔ ان دونوں حضرات کے کام کو کتاب کی شکل میں تحریک بناکر زندہ کرنے کا کام شاہ عبدالعزیز محد ث دہلوی علیہ الرحمہ نے کیا۔ ملک انگریزوں کے خلاف تحریک پید ا کرنے کے لیے سب سے پہلے فتوی جہاد ۱۸۲۲ میںآپ نے ہی دیا تھا۔ انھوںنے کہاکہ ان بزرگوں کے اعراس کی شروعات تقسیم ہند کے بعد مسجد فتحپوری کے سابق شاہی امام مفتی اعظم محمد مشرف احمد علیہ الرحمہ نے کی تھی اور ان کے بعد ان کے جانشین مفتی اعظم محمد میاں ثمر دہلوی علیہ الرحمہ نے کی اور اب ان کے صاحبزادہ محمد اسید احمد کررہے ہیں۔ڈاکٹر صوفی سید شاہ نورالا اعظم صوفی فرحان سجادہ نشین روضتہ الاصفیا شاہ ولی اللہی حیدر آباد نے ایک ابدال کا واقع سناتے ہوئے کہاکہ دہلی میں ایک اجنبی شخص آتا ہے اور حضرت غلام علی علیہ الرحمہ کے پاس جاتا ہے اور اپنی پریشانی بتاتا ہے لیکن آپ اسے بھگا دیتے ہیں۔ پھروہ شخص شاہ عبدالعزیز محد ث دہلوی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں آکر شکایت کرتا ہے، تو آپ مولانا غلام علی کو بلاتے ہیں۔ جب تینوں ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہیں تو پھر دونوں حضرات ا س اجنبی شخص کو پکڑ کر کھینچتے ہیں اور وہ بے ہوش ہوگیا ہے۔ پوچھے جانے پر بتاتے ہیں کہ یہ ابدال تھااور اس کودرجات کی ترقی میں دشواری پیش آرہی تھی کیونکہ ان کے شیخ کا انتقال ہوگیا تھا۔صوفی فرحان نے کہاکہ یہ وہ بارگاہ ہے جہاں ابدالوں کی بھی تربیت ہوتی تھی۔ صلاۃ وسلام دعاء اور تقسیم لنگر کے بعد عرس ختم ہوا۔اس موقع پر مولانا احمد علی ، مولانا انور علی ، سید جابر علی سجادہ نشین خانقاہ حیدری ،مبارک علی نقشبندی ، اسلام الدین ندیم، محمد عاصم ، محمد چاند ،محمد اسلم، صدر نسیم، ماسٹر مصطفی ، حافظ مغفور ، کیف عطاری ، اسلم عطاری سمیت بڑی تعداد میں لوگوںنے شرکت کی۔
ذہن نشیں رہے کہ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ 25 رمضان المبارک 1159ھ بمطابق 11 اکتوبر 1746ء بروز منگل کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام غلام حلیم ہے جس کے اعداد 1159 ہیں۔ جس سے سنہ ولادت نکلتا ہے آپ کا سلسلہ نسب 34 واسطوں سے سیدنا عمر فاروق تک منتہی ہوتا ہے۔شاہ عبد العزیز صاحب جب سترہ سال کے ہوئے تو ان کے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات ہوئی۔ پچیس برس کی عمر ہی سے آپ متعدد موذی امراض میں مبتلا رہنے لگے تھے اور آخر عمر تک اس میں گرفتار رہے۔ اوائل عمر ہی میں کثرت امراض کے باوجود شاہ صاحب نے مدة العمر درس و تدریس کا بازار گرم رکھا اور اپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے۔
1822 ء کے لگ بھگ اس اعلان کے بعد شاہ عبد العزیزؒ نے یہ فتوٰی دیا کہ پورے برصغیر پر نصارٰی کا غلبہ ہو گیا ہے، اور ہمارے قوانین منسوخ کر کے انہوں نے اپنے قوانین نافذ کر دیے ہیں، اس لیے یہ ملک دارالحرب ہے اور جہاد فرض ہو گیا ہے۔ اسی فتوے کی بنیاد پر بالا کوٹ کی جنگ لڑی گئی، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ اور تیتومیرؒ نے جنگ لڑی، جنوبی پنجاب میں سردار احمد خان شہیدؒ نے جنگ لڑی، سرحدی علاقہ میں حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ نے جنگ لڑی، بیسیوں جنگیں ہوئیں۔ وہی جنگیں جب آگے بڑھیں تو پھر حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے میں آخری جنگ کا منصوبہ ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کے عنوان سے بنایا گیا جو ناکام ہوئی، اس کے بعد ہم عسکری جنگ سے سیاست کی طرف منتقل ہوئے۔
شاہ صاحب نے اسّی برس کی عمر میں 9/شوال 1239ھ /1823/ کو یک شنبہ کے روز وفات پائی۔ مختلف شعرا نے تاریخ وفات کہی، جن میں حکیم مومن خان دہلوی کے قطعہ تاریخ اس فن کی ایک نادر مثال ہے۔ دست بیداد اجل سے بے سر و پا ہو گئے فقر و دین، فضل و ہنر، لطف و کرم، علم و فضل۔
شاہ عبد العزیز صاحب نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امراض کی شدت اور آنکھوں کی بصارت زائل ہونے کے سبب بعض کتابوں کو آپ نے املا کرایا ہے۔شاہ صاحب کے اہم تصانیف میں تحفۂ اثنا عشریہ،عجالہ نافعہ،بستان المحدثین،فتاوی عزیزی اورتفسیر فتح العزیز معروف بہ تفسیر عزیزی قابل ذکر ہے۔ تفسیر عزیزی ان کی مشہور تفسیری تصنیف ہے، جس کی صرف چار جلدیں دو اول کی اور دو آخر کی ملتی ہیں۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ ان کے علاوہ بلاغت، کلام، منطق اور فلسفے کے موضوعات پر بھی شاہ صاحب نے متعدد رسالے اور حاشیے فارسی اور عربی زبان میں لکھے ہیں۔ یہ تفسیر نامکمل صورت میں پائی جاتی ہے۔ سورة فاتحہ اور سورة البقرہ کی ابتدائی ایک سورت چوراسی آیتوں کی تفسیر پہلی دو جلدوں میں اور آخر کے دو پاروں کی تفسیر علاحدہ علاحدہ جلدوں میں ہیں۔ یہ جلدیں متعدد بار شائع ہو چکی ہیں۔ تفسیر کے مقدمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاہ صاحب کے ایک شاگرد شیخ مصدق الدین عبد اللہ تھے، جن کی تحریک پر یہ تفسیر لکھی گئی اور ان ہی کو شاہ صاحب نے اس کا املا کرایا تھا اور یہ سلسلہ 1208ھ/1793/ میں مکمل ہوا۔