نئی دہلی (یو این آئی) وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ چھ دہائیوں میں مسلسل تیسری بار کسی ایک حکومت کے اقتدار میں آنے کو جمہوریت کے شاندار سفر میں ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت جو بجٹ پیش کرنے جارہی ہے بہت اہم ہے اور یہ اگلے پانچ برسوں کے لیے ملک کی حالت اور سمت کا تعین کرے گا پیر کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آغاز سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا، ‘یہ بجٹ امرتکال کا ایک اہم بجٹ ہے۔ ہمیں پانچ سال کا موقع ملا ہے، آج کا بجٹ ان پانچ برسوں کے لیے ہمارے کام کی سمت بھی طے کرے گا اور جب 2047 میں آزادی کے 100 سال مکمل ہوں گے تب ترقی یافتہ ہندستان کا جو خواب ہے اس کی تکمیل کی مضبوط بنیاد والا بجٹ ملک کے سامنے آئے گا۔ یہ ہر شہری کے لیے فخر کی بات ہے کہ ہندوستان بڑی معیشت والے ممالک میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ ہم گزشتہ 3 برسوں میں مسلسل 8 فیصد گروتھ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان مثبت نقطہ نظر، سرمایہ کاری اور مواقع کے عروج پر ہے۔ یہ اپنے آپ میں ہندوستان کی ترقی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
انہوں نے تیسری بار واحد حکومت کے قیام کو جمہوریت کے لیے فخر کی بات قرار دیتے ہوئے کہا، ‘میں اسے ہندوستان کی جمہوریت کے شاندار سفر میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھتا ہوں۔ یہ میرے لیے ذاتی طور پر اور ہمارے تمام ساتھیوں کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ تقریباً 60 سال بعد ایک حکومت تیسری بار آئی ہے اور اسے تیسری اننگز کا پہلا بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت کی شان اس کو ایک باوقار واقعہ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ یہ بجٹ سیشن ہے۔ ہم ان ضمانتوں کو بتدریج نافذ کرنے کے مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں جو میں ہم وطنوں کو دیتا رہا ہوں۔
وزیر اعظم نے کہا، "میں ملک کے تمام ممبران پارلیمنٹ سے اپیل کرتا ہوں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ آج میں درخواست کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے گزشتہ جنوری سے اب تک جتنی طاقت بھی لڑائی لڑنی تھی لڑل لی، ہم نے جو کچھ عوام کو بتانا تھا بتا دیا۔ کچھ نے راستہ دکھانے کی کوشش کی، کسی نے گمراہ کرنے کی، لیکن اب وہ دور ختم ہو چکا ہے، اہل وطن نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ منتخب اراکین پارلیمنٹ کا فرض ہے، تمام سیاسی جماعتوں کی یہ خصوصی ذمہ داری ہے کہ ہم نے پارٹی کے لئے جتنی لڑائیاں لڑنی تھیں لڑ لیں ، اب آنے والے 5 سال ہمیں ملک کے لیے لڑنا ہے۔ ملک کے لیے ایک اور عظیم بن کر لڑنا پڑتا ہے۔ میں تمام سیاسی جماعتوں سے بھی کہوں گا کہ آئیے ہم پارٹی سے بالا ترہو کر اور صرف ملک کے لیے خود کو وقف کر کے آنے والے چار، ساڑھے چار برسوں کے لیے پارلیمنٹ کے اس باوقار پلیٹ فارم کو استعمال کریں۔
وزیراعظم مودی نے منتخب اراکین سے کہا کہ جنوری 2029 جب الیکشن کا سال ہوگا، اس کے بعد میدان میں نکلیں، آپ نے ایوان کو بھی استعمال کرنا ہے، کر لیں۔ آپ ان 6 مہینوں کے لیے جو بھی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، کھییل لیں لیکن اس وقت تک ہم صرف اور صرف ملک، ملک کے غریبوں، ملک کے کسانوں، ملک کے نوجوانوں، ملک کی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے عوامی شراکت کی ایک عوامی تحریک بناکر 2047 کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش میں اپنی پوری طاقت لگا دیں گے۔ آج مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ 2014 کے بعد کچھ ایم پی 5 سال کے لیے آئے، کچھ ایم پی کو 10 سال کا موقع ملا۔ لیکن بہت سے ارکان پارلیمنٹ ایسے بھی تھے جنہیں اپنے علاقے کے بارے میں بات کرنے کا موقع نہیں ملا، پارلیمنٹ کو اپنے نظریات سے مالا مال کرنے کا موقع نہیں ملا، کیونکہ بعض جماعتوں کی منفی سیاست نے ملک کی پارلیمنٹ کے اہم وقت کا ایک طرح سے اپنی سیاسی ناکامی کو چھپانے کے لیے غلط استعمال کیا ۔ میں تمام جماعتوں سے گزارش کرتا ہوں کہ انہیں وہ لوگ جو پہلی بار ایوان میں آئے ہیں ایسے اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد ہے اور تمام جماعتوں میں ہیں، بحث میں انہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگے آنے کا موقع دیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ نئی پارلیمنٹ کی تشکیل کے بعد پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں حکومت کی آواز کو دبانے کی ایک غیر جمہوری کوشش کی گئی جسے 140 کروڑ اہل وطن نے اکثریت کے ساتگ خدمت کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کا ڈھائی گھنٹے تک گلا گھونٹنے، ان کی آواز کو روکنے اور دبانے کی جمہوری روایات میں کوئی جگہ نہیں اور اس سب پر کوئی پچھتاوا نہیں، دل میں درد بھی نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے تمام منتخب ممبران پارلیمنٹ سے درخواست کرتے ہوئے کہا، “آج میں درخواست کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم وطنوں نے ہمیں یہاں پارٹی کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے بھیجا ہے۔ یہ ایوان پارٹی کے لیے نہیں، یہ ملک کے لیے ہے۔ یہ ایوان صرف اراکین پارلیمنٹ کی تعداد تک محدود نہیں ہے، یہ 140 کروڑ ہم وطنوں کی بڑی تعداد کے لیے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے تمام معزز ممبران پارلیمنٹ پوری تیاری کے ساتھ بحث کو تقویت بخشیں گے، خواہ کتنے ہی مخالف خیالات کیوں نہ ہوں، مخالف خیالات برے نہیں ہوتے، منفی سوچ بری ہوتی ہے۔ جہاں سوچ کی حدیں ختم ہو جائیں وہاں ملک کو منفیت کی ضرورت نہیں ہوتی، ہمیں ایک نظریہ، ایک نظریہ ترقی، ایک نظریہ ترقی، ایسا نظریہ لے کر آگے بڑھنا ہے جو ملک کو نئی بلندیوں پر لے جائے۔ مجھے پوری امید ہے کہ ہم ہندوستان کے عام لوگوں کی امیدوں اور امنگوں کو پورا کرنے کے لیے جمہوریت کے اس مندر کا مثبت استعمال کریں گے۔