اعظم گڑھ: مولانا ڈاکٹر حکیم شاہد بدرصاحب فلاحی ہفتہ کے روز سہ پہرکے وقت دنیائے فانی سے کوچ کرکے مالک حقیقی کی طرف آغوش رحمت میں چلے گئے ۔حکیم صاحب اپنے آپ میں ایک تحریک تھے۔موصوف کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا۔ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی نے نوجوانوں کی اسلامی تربیت اور ان کی فکری اور اخلاقی اصلاح کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں کا مرکز نوجوان نسل کی اسلامی شعور اور دینی تربیت پر رہا ۔موصوف ایس آئی ایم کے سابق صدر کے عہدہ پر فائز رہے۔
فیس بک پر اس حوالے سے تعزیتی کلمات لکھتےہوئے سمیع اللہ خان نے لکھا ہے کہ” تحریکِ اسلامی کے بےلوث جانباز ، مسلمانان ہند کی مشہور اور ممنوعہ طلباء تنظیم سیمی کے آخری کل ہند صدر، محترم دوست ، شاہد بدر فلاحی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، یہ حادثہ تحریک اسلامی کے حلقوں میں غم و اندوہ کا سبب ہے، مرحوم نہایت نیک سیرت، بہادر طبیعت اور اصول پسند شخصیت تھے، مسلمانوں کے وقار اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے زندگی بھر حساس رہے۔
انہوں نے فکر اسلامی اور تحریک اسلامی کی راہ میں قید و بند کی اذیتیں بھی برداشت کی تھی، لیکن تاعمر سَنگھی ایمپائر کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے "۔سمع اللہ خان نے لکھا ہے کہ مرحوم شاہد بدر فلاحی نے قیدیوں کی رہائی پر جو کتاب ” فکوا العانی” لکھی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ایسے ہی پاکستان کی مجاہد بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ان کی لکھی ہوئی تحریریں اہل ایمان کے لیے ایمان افروز سوغات ہیں ۔
حکیم شاہد بدر فلاحی کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرواپس لوٹتے ہوئے معروف صاحب قلم جناب محمد رضی الاسلام ندوی نے لکھاہے کہ ” ان کی سرگرم اور پُر عزیمت زندگی نگاہوں کے سامنے ہے اور چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر مشتمل ان سے تعلق کی یادیں امڈ امڈ کر آرہی ہیں” –
وہ لکھتے ہیں کہ” کئی دن پہلے بھائی شاہد بدر کو برین ہیمرج ہونے کی خبر آئی تھی – دوسرے دن ان کے صاحب زادے عمیر کو فون کرکے حال معلوم کیا تو اس کی اس بات نے تشویش میں مبتلا کردیا کہ کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا ہے – آج ساڑھے دس بجے صبح جامعۃ الفلاح کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے اعظم گڑھ پہنچا – ارادہ کرلیا تھا کہ آج کے اجلاس سے فارغ ہوکر عشاء کی نماز کے بعد ان کی عیادت کے لیے جاؤں گا ، لیکن افسوس کہ دوپہر ہی میں ان کے انتقال کی خبر آگئی – عشاء کے بعد چند رفقاء : مولانا محمد طاہر مدنی سابق ناظم جامعۃ الفلاح ، ڈاکٹر ملک محمد فیصل امیر جماعت اسلامی ہند حلقہ اترپردیش مشرق اور ڈاکٹر رضوان احمد رفیقی اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہند کے ساتھ ان کے گاؤں (من چوبھا) پہنچا ، لیکن ملاقات اور عیادت کے لیے نہیں ، بلکہ ان کے جنازہ میں شرکت کے لیے” –
رضی الاسلام ندوی آگے لکھتے ہیں کہ "علی گڑھ میں میرا اور شاہد بدر صاحب کا طالب علمی کا زمانہ تقریباً ایک ہے – میں اجمل خاں طبیہ کالج سے 1989 میں بی ایم ایس کرچکا تھا اور غالباً اسی برس ان کا داخلہ ہوا تھا ، پھر میں 1994 میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی جوائن کرچکا تھا اور ان کی فراغت 1996 میں ہوئی تھی – ہمارے درمیان کئی گہری مناسبتیں تھیں : طب کی تعلیم ، طلبہ تحریک سے تعلق اور تحریر و تصنیف سے دل چسپی – ان مناسبتوں نے آخر تک ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھا – قیامِ علی گڑھ کے زمانے میں وہ جب چاہتے ، ادارۂ تحقیق آجاتے ، رسائل کا مطالعہ کرتے ، خاص طور سے ماہ نامہ زندگی نو کی قدیم فائلیں دیکھتے ، کبھی زیراکس کے لیے لے جاتے اور کچھ موضوعات پر مشورہ کرتے –
رضی الاسلام ندوی کے بقول میں نے 1994 میں طلبہ تحریک ( اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا) سے ریٹائر ہوکر تھوڑی مدّت کے بعد جماعت اسلامی ہند میں شمولیت اختیار کرلی ، وہ طلبہ تحریک میں سرگرم رہے ، بلکہ اس میں آگے بڑھتے گئے ، یہاں تک کہ انہیں اس کا کل ہند صدر بنا دیا گیا – اس اعتبار سے تاریخ کا حصہ بن گئے کہ انہی کے عہدِ صدارت میں طلبہ تحریک پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کردی گئی – انہیں اور طلبہ تحریک کے ارکان کو بڑے پیمانے پر قید و بند اور ایذا و تعذیب کا سامنا کرنا پڑا ، ان کے خلاف جھوٹے مقدمے مختلف عدالتوں میں قائم کیے گئے ، لیکن ان کے پایۂ استقامت میں لرزش نہیں آئی – انھوں نے مقدمات کا سامنا کیا اور ساتھ ہی اس پابندی کو بھی چیلنج کیا – کئی مقدمے دہلی میں تھے ، اس کے لیے انہیں بار بار دہلی آنا پڑتا تھا – ایک مرتبہ حکومت کے قائم کردہ ٹربیونل نے طلبہ تحریک کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اس پر سے پابندی اٹھا لی تو حکومت نے فوراً سپریم کورٹ جاکر اسٹے حاصل کرلیا – ہر دو برس پر پابندی کی تجدید کی جاتی رہی ، پھر اس کا دورانیہ پانچ برس کردیا گیا – یہ پابندی اب تک برقرار ہے” – رضی الاسلام ندوی کے بقول شاہد بدر کی دوسری دل چسپی تصنیف و تالیف سے تھی – کچھ عرصہ زنداں میں گزارنے کے بعد انھیں خیال آیا کہ اندرونِ زنداں کے تجربات ضبطِ تحریر میں لائیں ، چنانچہ انھوں نے ‘فکّوا العانی'(قیدیوں کو چھڑاؤ) کے نام سے کتاب تصنیف کی – اس کے بعد تو مظلومین کے احوال پر ان کا قلم رواں ہوگیا – انھوں نے شام کی مظلوم بیٹی ‘ھبہ الدباغ’ پر ‘کوہ استقامت ھبۃ الدباغ’ کے نام سے اور پاکستان کی مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی پر ‘سرگزشتِ عافیہ’ کے نام سے کتابیں تیار کیں – پھر سیرتِ نبوی کے ایک کم معروف پہلو ‘شعب ابی طالب’ پر انھوں نے کام کرنا کیا اور اوسط حجم کی ایک کتاب تیار کرلی – نیشنلزم اور خلافت کے نام سے بھی ان کی ایک کتاب ہے – چند ماہ پہلے مجھے ان کے تین کتابچے : تحفۂ صیام ، تحفۂ عید الاضحٰی اور یوم الفرقان موصول ہوئے تھے – وہ جب بھی دہلی آتے مجھ سے ملاقات کرنے کی کوشش کرتے ، زیرِ تحقیق موضوعات پر تبادلۂ خیال کرتے ، ممکنہ مواد کہاں کہاں سے مل سکتا ہے؟ اس پر مشورہ کرتے اور تیار کردہ خاکہ پر ڈسکس کرتے – کچھ عرصہ کے بعد ان کی کتاب منظرِ عام پر آجاتی تو اس کا نسخہ بھیجتے – مجھے ان کی کئی کتابوں کا تعارف کرانے کا موقع ملا ہے –
رضی الاسلام ندوی کے مطابق شاہد بدر نے آخری زمانے میں ماہر یونانی معالج کی شہرت حاصل کرلی تھی – انھوں نے اعظم گڑھ شہر میں البدر یونانی شفاخانہ کے نام سے اپنا مطب شروع کیا – انھوں نے طے کرلیا تھا کہ صرف یونانی پریکٹس کریں گے – ایک طرف ان کے پاس طب کے قدیم مصادر و مراجع تھے ، دوسری طرف ان کا اپنا تجربہ – انھوں نے اپنے مطب کے اوقات متعین کیے اور تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی جاری رکھا – ان کی طرف مریضوں کا رجوع بڑھنے لگا – دوٗر دوٗر سے مریض آنے لگے اور پیچیدہ اور مزمن امراض سے شفا پانے لگے – شاہد صاحب نے محسوس کیا کہ بسااوقات امراض سے شفا نہ ہونے کا ایک سبب خالص یونانی دواؤں کی عدم فراہمی ہے – دوا ساز کمپنیوں کی توجہ معیاری دواؤں کی تیاری سے زیادہ اپنی مارکیٹنگ پر رہتی ہے – اس احساس نے انھیں دوا سازی کی جانب مائل کیا – انھوں نے اپنے مخصوص نسخوں کی مرکّب دواؤں کو خود تیار کرنا شروع کردیا – اس کی وجہ سے انہیں شناختِ ادویہ میں خاصی مہارت حاصل ہوگئی تھی – رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں کہ شاہد صاحب نے طب کے میدان میں اپنے مشاہدات و تجربات قلم بند کرنے شروع کردیے تھے – متعدد پیچیدہ بیماریوں پر ان کے لکھے گئے مضامین مختلف طبی رسائل میں شائع ہوئے اور طبی حلقوں میں بہت پسند کیے گئے – ان کی بہت سی طبی تحریریں سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہوئیں اور دوٗر دوٗر تک پہنچیں – اگر کوئی باذوق نوجوان ان کی تمام طبّی تحریروں کو کتابی صورت میں جمع کردے تو یہ ایک اہم علمی اور فنّی خدمت ہوگی –
رضی الاسلام ندوی کے لفظوں میں "حکیم شاہد بدر کی وفات اسلامی تحریک کا خسارہ ہے کہ وہ فکری صلابت اور عزیمت و استقامت کے حامل اپنے ایک خادم سے محروم ہوگئی – اسی طرح طبی دنیا بھی ایک حاذق اور تجربہ کار طبیب سے محروم ہوگئی ، جس نے اپنے بہت سے قیمتی تجربات سے اہلِ فن کو مالامال کیا ہے – اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : خیرُ الناس انفعھم للناس (بہترین انسان وہ ہے جس کی ذات سے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے -) شاہد صاحب کے لیے اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی مقدّر کر رکھی تھی اس میں انھوں نے سرگرم زندگی گزاری اور خلقِ خدا کو اپنی بہترین صلاحیتوں سے خوب فائدہ پہنچایا” –