نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو)آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدر آباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال کیا ہے کہ کیا اب ملک کے مسلمانوں کو گھر پر نماز پڑھنے کے لیے بھی انتظامیہ سے اجازت لینا پڑے گی۔ انھوں نے یہ سوال حال ہی میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع مراد آباد میں کچھ لوگوں کے جمعے کی نماز ادا کرنے کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے این آئی نے مراد آباد کے ایس پی ایس کے مینا کے حوالے سے بتایا ہے کہ مراد آباد کے ’چھاجلیٹ پولیس تھانہ حدود میں 24 اگست کو بڑی تعداد میں لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے، وہاں کوئی مسجد نہیں اور (مسلمانوں کے) صرف دو گھر ہیں۔ پولیس نے شکایت کے بعد دونوں گھروں کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جبکہ ان گھروں کے مالکان روپوش ہیں اور تحقیقات جاری ہیں۔‘
واضح رہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کے مسجد کے بجائے گھر میں نماز ادا کرنے کے بعد پولیس کو شکایت کی گئی تھی۔ ملک میں نماز ادا کرنے کے معاملے پر تنازعہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ جب پولیس میں شکایت درج کی گئی ہو یا سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ہو۔ یہ کہنا ہے بی بی کا جس نے اپنی رپورٹ میں نماز پر حال کے دنوں میں تنازعہ کھڑا کرنے کی بعض کوششوں کو نشان زد کیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے ایک شاپنگ مال میں چند افراد کے نماز ادا کرنے کے خلاف سخت گیر ہندو تنظیم بجرنگ دل نے مظاہرہ کیا۔ انھوں نے سنیچر کے روز نماز کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد مظاہرہ کیا اور ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔ اس سے قبل اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں کھلنے والے لولو مال میں بھی نماز پڑھنے پر تنازعہ ہوا تھا اور اس میں لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی تھی جنھیں ضمانت پر رہائی مل گئی۔
بہر حال مرادآباد کے ایک گھر میں نماز کے تنازعے پر پولیس کے بیان کے بعد رکن پارلیمان اسدالدین اویس نے ٹویٹ کیا کہ ’بھارت کے مسلمان اب گھروں میں بھی نماز نہیں پڑھ سکتے۔ کیا اب نماز پڑھنے کے لیے بھی حکومت/پولیس سے اجازت لینا ہوگی؟ نریندر مودی کو اس کا جواب دینا چاہیے، کب تک ملک کے مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جائے گا؟‘
اسی کے ساتھ دوسری ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’سماج میں بنیاد پرستی اس حد تک پھیل گئی ہے کہ اب دوسروں کے اپنے گھروں میں نماز پڑھنے سے بھی لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ جاتی ہے۔‘
مراد آباد پولیس نے اسد الدین اویسی کے ٹویٹ پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’گاؤں کے رہائیشوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے بعد بھی کچھ لوگوں نے سماج میں دشمنی، نفرت، عناد کے جذبات پیدا کرنے کے مقصد سے اجتماعی طور پر جگہ بدل بدل کر نماز ادا کی۔ جس کی وجہ سے دوسرے فریق کے ذریعے دی گئی تحریر اور جانچ کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا، دیگر ضابطے کی کارروائی جاری ہے۔‘
ریاست آسام سے رکن اسمبلی اشرف الحسین نے اس بابت لکھا کہ ’گھر کے اندر نماز پڑھنے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ یہاں کون زیادہ متعصب ہے؟ گلا سڑا سماج یا پولیس جس نے مقدمہ درج کیا؟‘
اسی کے ساتھ بی بی سی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھوپال مال میں نماز پڑھنے کے واقعے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی رکن کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ڈاکٹر عاصمہ زہرہ طیبہ نے لکھا کہ ’نماز مسلمانوں کی پانچ وقت ادا کرنے والی ضروری عبادت ہے۔ یہ لوگ مسجد میں یا کسی کونے میں امن کے ساتھ عوام کو کسی پریشانی میں مبتلا کیے بغیر نماز پڑھتے ہیں۔ ان غنڈوں کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ اس کی فلم بندی کریں اور اسے ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر پھیلائیں۔۔۔‘
اس سے قبل نئی دہلی سے ملحق گڑگاؤں میں بھی کھلے میدان میں جمعے کی نماز ادا کرنے کے معاملے نے طول پکڑا تھا۔
ایک سینئیر مبصر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سوالیہ انداز میں پوچھا کہ ’یہ کیا ہو رہا ہے۔ میر واعظ کو مسجد میں نماز ادا کرنے نہیں دی جا رہی۔ اترپردیش میں گھر میں نماز ادا نہیں کر سکتے، گڑگاؤں میں کھلے مقام پر نماز ادا نہیں کر سکتے، آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔‘
اس سے قبل علی گڑھ کے ایک کالج میں ایک استاد کے پارک میں نماز پڑھنے کا معاملہ بھی سامنے آيا تھا اور ان کے خلاف کالج نے ’ضابطے کی کارروائی‘ کا دعویٰ کیا تھا۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صالحہ آسیہ نے دی کوگنیٹ ڈاٹ کام میں شائع اپنے ایک مضمون ’کالجوں میں حجاب پر پابندی سے لے کر نماز ادا کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرنے تک، انڈیا میں عوامی مقامات پر اسلام اور مسلم شناخت کو مجرمانہ عمل بنانا‘ میں لکھا کہ سنہ 2021 میں انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے اپنے دورے کے دوران انڈیا کے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بی جے پی کی انتخابی مہم کے ایک حصے کے طور پر ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لوگوں کو نماز کے لیے قومی شاہراہ بند کرنے کی اجازت تھی۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’ایک مرکزی وزیر کے ذریعہ عوام میں کہے جانے والے اس غلط اور نقصان دہ بیان نے نادانستہ طور پر ہندو بالادستی کی نماز مخالف مہم کو تقویت بخشی ہے۔‘