علی گڑھ: بین الاقوامی شہرت یافتہ ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر، ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے انتقال پر شعبہ عربی و شعبہ علوم اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف اساتذہ نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا ۔صدر شعبہ عربی پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی نے اپنی تمہیدی گفتگو میں کہا کہ استاذ گرامی مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔میں نے ان سے تاریخ ادب عربی، جغرافیہ، منثورات اور دوسری کتابیں بھی پڑھیں، رشدو ہدایت، ملکی وملی خدمات ، زبان وادب کے بارے میں جدید رجحانات، ادب اسلامی کی تشکیل ونو تشکیل کے میدان میں ان کے کارناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر محمد سمیع اختر نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مختلف جہات شخصیت کے مالک تھے۔ نظامت ندوۃ العلماء کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار رہا ہے۔ پروفیسر ابوسفیان اصلاحی نے کہا کہ یہ حادثہ ایک ملکی وملی نہیں ہے بلکہ عالمی خسارہ ہے، ان کے اندر اخلاص وللہیت،ایثار وقربانی بھرین ہوئی تھی۔ پروفیسر کفیل احمد قاسمی نے کہا کہ مولانا نے ملی ترقی کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی، مولانا علی میاں ندوی کی تمام خصوصیات ان کے اندر موجود تھیں۔ پروفیسر مسعود انور علوی نے کہا کہ مولانا رابع صاحب کے خاندان سے میرا تعلق بارہویں صدی سے ہے، مولانا کے جد اعلی نے سلسلہ قادریہ وقلندریہ کی اجازت میرے خاندان کے افراد کو دی تھی، خصوصامیرے والد مرحوم سے مولانا کے خاندان کا تعلق روحانی وقلبی تھا۔ پروفیسر سعود عالم قاسمی نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی خدمات علم، تدریس، خلوص وللہیت میں لافانی ہیں ، ان کے اندر علم کے ساتھ ساتھ حلم وبرد باری بھی تھی۔
پروفیسر سید احتشام احمد ندوی نے کہا کہ مولانا سے میرا تعلق بحیثیت استادرہا، انہوں نے مجھے عربی لکھنا سکھایا اور جو تصحیحات کرتے تھے وہ میرے دل پر آج بھی نقش ہیں۔ پروفیسرعبد الحمید فاضلی صدر شعبہ علوم اسلامی نے اپنے دور طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کے اندر اخلاص وللہیت بھری ہوئی تھی، ان سے تمام مکاتب فکر کے لوگ متفق رہتے تھے ۔صدر جلسہ پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے کہا کہ مولانا کا سانحہ ارتحال سب سے بڑا سانحہ ہے ،میرے خاندان سے ان کے چار ، پانچ پشتوں سے تعلقات تھے، وہ صحیح معنوں میں عالم باعمل تھے، تمام مسالک کے اصحاب سے ان کے گہرے مراسم تھے، آج ملت اسلامیہ ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئی۔ڈاکٹر فخرعالم ندوی نے شعبہ عربی وعلوم اسلامیہ کی طرف سے تعزیتی قرار داد پیش کی جس میں ان کے اوصاف وکمالات کا ذکر کیا گیا۔ جلسہ کا اختتام پروفیسر محمد احتشام ندوی کی دعاء پر ہوا۔