علی گڑھ، 15 اپریل: مرکز تحقیقات فارسی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام عالمی شہرت یافتہ ناقد و ادیب ڈاکٹر تقی عابدی (کناڈا)نے ’’باقیا ت اقبال کی اہمیت و افادیت ‘‘کے موضوع پر اپنے توسیعی خطبہ میں علامہ ا قبال کے غیر مطبوعہ اردو کلام پر روشنی ڈالی۔ انھوںنے کہا کہ اقبال نے اس زمانہ میں اپنے کلام کا ایک حصہ مسترد کر دیا تھا ۔یہ کلام جا بجا رسائل و جرائد ،مثلاً مخزن وغیرہ میں دستیاب توہوا لیکن اس پر تفصیلی اور محققانہ کام ابھی تک نہیں ہوا تھا ۔ڈاکٹر عابدی نے کہا کہ انھوں نے باقیات اقبال پر مفصل کام کیا ہے اور جلد ہی ۸۰۰؍صفحات پر مشتمل ا ن کی محققانہ کاوش شائقین ادب تک پہنچ جائے گی ۔عابدی صاحب نے اطلاع دی کہ تقریباً ۳۰؍نظموں ،۲۵؍ سے زائد غزلیات، ۴۶؍ قطعات کو اقبا ل نے اس وقت اپنے مطبوعہ کلام میں شامل نہیں کیا تھا ۔علاوہ بر ایں بہت سے منظومات سے بعض جزو مسترد کر دیئے حالانکہ مثلاً معروف نظم ’ہمالیہ‘،’ شکوہ و جواب شکوہ‘ اور دیگر نظموں کے بعض بند موجودہ مطبوعہ کلام میں شامل نہیں ہیں ۔انھوں نے بطور مثال دو بند پڑھ کر سنائے۔ انھوں نے بعض وہ نظمیں بھی پڑھیں جو علامہ اقبال نے بچوں کے لیے بطور نصیحت قلم بند کی تھیں (فکرو زبان کے اعتبار سے وہ شائع ہونے کے لائق تھے)۔ڈاکٹر عا بدی کی معلومات افزا تقریر سے اقبال اور ان کے کلام سے متعلق بہت سی نئی اور مفید اطلاعات سامعین تک پہنچیں ۔ جلسے کی صدارت معروف ناقد اور صاحب قلم پروفیسر قاضی جمال حسین نے کی۔ انھوں نے ڈاکٹر عابدی کی تقریر کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ کئی نئے حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ عابدی صاحب کی ترتیب دادہ ’’باقیات اقبال‘‘ سے شاعر مشرق سے متعلق تحقیق و تنقید کی نئی راہیں کشادہ ہوں گی اور محققین اقبال کی نئی جہات کی طرف متوجہ ہوں گے ۔ مرکز تحقیقات فارسی کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد عثمان غنی نے مہمانوں کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہوئے کہا کہ عابدی صاحب نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ انتہائی اہم ہے ۔ انھوں نے کہا کہ عابدی صاحب کی تقریر طلبا اور طالبات کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی اور ان کے بیان کردہ نکات کی روشنی میں نوجوان نسل علامہ اقبال سے متعلق تحقیق و تنقید کی طرف مزید متوجہ ہوگی۔
پروفیسر آزرمی دخت صفوی، مشاور اعزازی، مرکز تحقیقات فارسی نے لائق مقرر کا تعارف کروایا ۔انھوں نے کہا کہ عابدی صاحب نے ایک سرجن ہونے کے باوجود اپنی عمر علم و ادب کی خدمت میں صرف کی ہے ۔۷۰؍سے زائد تصنیفات و تالیفات منظر عام پر آئی ہیں ۔غالب،خسرو، میر، سودا،ا نیس ،دبیر، فیضی اور متعدداردو اور فارسی کے شعرا اور ادبا پر ان کا کام ہے ۔ عابدی صاحب کے اوپر کئی پی ایچ ڈی کے مقالے تحریر کیے جاچکے ہیں اور ان کی خدمات سے متعلق کئی کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ان کا بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے کلاسیکی مشرقی شاعری کے سبک کے نمائندہ مرثیہ گو شاعر مرزا سلامت علی دبیرکے کارناموں سے دنیا کو روشناس کرایا ۔
پروفیسر سید سراج اجملی نے عابدی صاحب کی غیر معمولی ادبی خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ ان کے تحقیقی کارناموں میں غالب کی نعت اور منقبت سے متعلق کام بھی شامل ہے ۔ اقبال کی شاعری کے کئی معنی خیز پہلوئوں کی طرف سراج اجملی نے روشنی ڈالی۔ سامعین نے عابدی صاحب کی تقریر کو بڑا دور رس اورمعنی خیز قرار دیا ۔ ڈاکٹر احتشام الدین ،اسسٹنٹ پروفیسر مرکز تحقیقات فارسی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔
جلسہ کے آخر میں ڈاکٹر تقی عابدی کی بعض کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ انھوں نے اپنی تصنیفات و تالیفات کا ایک سیٹ مرکز تحقیقات فارسی اور مولانا آزاد لائبریری کوعنایت کیا۔