نئی دہلی (یو این آئی) مرکزی حکومت نے چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا (سی ای سی) اور دیگر دو کمشنروں (ای سی) کی تقرری سے متعلق 2023 کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی میں عدالتی رکن کی موجودگی الیکشن کمیشن کی آزادی کے لیے ضروری نہیں ہے۔
وزارت قانون اور انصاف نے ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے تب (انوپ برنوال کیس-2023) کہا تھا کہ سی ای سی اور ای سی کی تقرری صدرجمہوریہ کے ذریعہ ایک کمیٹی کے مشورے پر کی جائے گی ۔ اس کمیٹی میں وزیر اعظم، اپوزیشن رہنما اورہندوستان کے چیف جسٹس شامل ہوں گے، جب تک اس سلسلے میں کوئی قانون نہیں بن جاتا۔حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ سلیکشن کمیٹی میں سینئر سرکاری افسران یا کسی وزیر کی موجودگی خود کمیٹی کی جانب سے جانبداری کی بنیاد نہیں بن سکتی۔
مرکزی حکومت نے اپنے جواب میں عرضی گزاروں کے ان الزامات کی تردید کی کہ دونوں الیکشن کمشنروں کی جلد بازی میں 14 مارچ 2024 کو تقرری کی گئی تھی، جب معاملہ اگلی سماعت کے لیے درج تھا۔مرکز نے دعویٰ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس کی شرائط اور دفتر کی مدت) ایکٹ 2023 کہیں زیادہ جمہوری ہے۔حکومت نے کہا کہ ای سی جیسے اعلیٰ آئینی عہدیداروں کے بارے میں یہ مانا جانا چاہئے کہ وہ عوامی مفاد میں غیر جانبداری اور نیک نیتی سے کام کریں گے۔مرکزی حکومت کے حلف نامہ میں کہا گیا ہے، “الیکشن کمیشن کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے۔ اس تقرری کے پیچھے سیاسی تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔عدالت عظمیٰ کے سامنے این جی او ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز اور دیگر نےایک درخواست دائر کرتے ہوئے نئے قانون میں سی ای ای اور ای سی کی تقرری کے لئے تشکیل کمیٹی میں چیف جسٹس کو شامل نہ کرنے پر سوال اٹھایا تھا۔