نئی دہلی(یو این آئی) اجمیر کی درگاہ ہماری سماجی ہم آہنگی اور ہماری قدیم ثقافت کی علامت کے ساتھ سا تھ ہندومسلم اتحاد کی شاندار مثال ہے کچھ لوگوں کو رات کو خواب میں بھی بابر سمیت تمام مغل حکمراں دکھائی دیتے ہیں انہیں سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو مغلوں کی نہیں بلکہ پیغمبر محمد اور صوفی سنتوں کی اولاد سمجھتے ہیں نیزوہ اپنے ہندوستانی ورثے پرنازاں ہیں ان خیالات کا اظہار سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور ایم پی راجیہ سبھا رام جی لال سمن نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر مندر ہونے کے دعوے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی بھی اجمیر کی درگاہ پر گئے تھے۔مقامی عدالت نے درگاہ کے خدام کی انجمن سید زادگان کو فریق نہیں بنایا۔ 1950 میں جسٹس غلام حسن کی کمیٹی نے یہاں ایک درگاہ کی موجودگی کی تصدیق کی۔تاریخ گواہ ہے کہ یہاں پر ہندو راجا بھی منت مانگنے کے لیے آتے تھے۔
رام جی لال سمن نے کہا کہ ہندوستانی پارلیمنٹ نے جب یہ قانون بنادیا کہ 15 اگست 1947 سے پہلے جہاں مندر تھامندر رہے گااور جہاں مسجد تھی، مسجد رہے گی تواس سے چھیڑچھاڑ کرنے کا کسی بھی کو بھی اختیار نہیں۔مذہبی مقامات کسے کے بھی ہوں، ان کی حیثیت وہی رہے گی۔ کہا جاتا ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے جون 2022 میں کہا تھا کہ مذہبی نقطہ نظر سے ہر مسجد کے نیچے کھودنا مناسب نہیں۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک درگاہوں کا تعلق ہے، یہ سماجی ہم آہنگی کی علامت ہیں، چاہے وہ آگرہ میں ابو لعلہ کی درگاہ ہو یا فتح پور سیکری میں شیخ سلیم چشتی کی درگاہ اور مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں درگاہیں ہوں۔درگاہوں پر اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہندو ان درگاہوں پرمنت مانگتے ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ آئینی عہدہ پر فائز سب سے بڑی شخصیت اجمیر شریف کی درگاہ پر جا چکی ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرکردہ لیڈر اندریش کمار نے بھی یہاں پر وزیر اعظم کی طرف سے چادر چڑھائی ہے۔
مسٹر سمن نے ہندو مسلم اتحاد میں خلل ڈالنے والوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔