واشنگٹن(ایجنسیاں)امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے لیے ماضی میں جاری رہنے والی دفاعی امداد کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا ہے۔ یہ بات وائس آف امریکہ کی جانب سے منگل کے روز پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی محمکہ خارجہ کے ایک اہلکار نے ایک ای میل میں بتائی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا ’’امریکہ نے پاکستان کے ساتھ بڑے پیمانے پر دو طرفہ تعلقات کے لیے دفاعی امداد کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا ہے۔ امریکہ، قومی سلامتی کے مزید مخصوص مفادات کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ سیکیورٹی تعاون کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہا ہے۔‘‘
امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی ہے جب پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ امریکہ کے چھ روزہ دورے پر ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ جمعے کو نیویارک پہنچنے والے پاکستان کے ایک اعلی سطحی فوجی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے اس دوران اعلیٰ امریکی دفاعی اور سفارتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ منگل کے روز پنٹاگان میں ان کی امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے بھی ملاقات ہوئی۔
امریکی محکمہ دفاع کے ادارے پنٹاگان کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے ، ’’4 اکتوبر کو، سیکریٹری دفاع لائیڈ جے آسٹن III نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر پنٹاگان میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی میزبانی کی۔ یہ دیرینہ باہمی تعلقات آج بھی جاری ہیں جس کے نتیجے میں آج اہم باہمی دفاعی مفادات کو حل کرنے کے مواقعوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔‘‘
اس سلسلے میں پاکستان کی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی آیس پی آرکے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف آرمی سٹاف نے آج امریکہ کے دورے کے دوران سیکریٹری دفاع جنرل لائیڈ جیمز آسٹن III (ریٹائرڈ)، قومی سلامتی کے مشیر مسٹر جیکب جیرمیا سلیوان، اور ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ وینڈی روتھ شرمین سے ملاقات کی۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ “ان ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورت حال اور مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے امریکی افسران کا امداد پر شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمارے عالمی شراکت داروں کی مدد پاکستان میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے اہم ہوگی۔”
منگل کے روزامریکی ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر کرس وین ہالین نے وائس آف امریکہ کی کرد سروس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ظاہر ہے کہ ہمارے (امریکہ اور پاکستان کے درمیان) کچھ معاملات پر اختلافات ہیں۔ لیکن میری پاکستانی وزیر خارجہ اور حالیہ دورے میں آرمی چیف سے بھی ملاقات ہوئی ہے اور کئی موضوعات ہیں جن پر بات چیت ضروری ہے۔‘‘امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر کرس وین ہالین نے مزید کہا کہ “اس اندوہناک ( سیلاب سے پیدا ہونے والے) سانحے سے میرے خیال میں پاکستان اور اس کی عوام سے پھر سے رابطے استوار کرنے کا موقعہ پیدا ہوا ہے۔ ہمارا ایک طویل مدتی سیکیورٹی تعلق ہے۔ جو ظاہر ہے افغانستان میں جنگ کے دوران بعض اوقات تناؤ کا شکار رہا۔ “
خیال رہے کہ اب تک پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے امریکہ تقریباً 56 ملین ڈالرز کی امداد فراہم کر چکا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بظاہر سویلین اور فوجی سطح پر تعلقات میں گرم جوشی کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں مقیم دفاعی امور کے ماہر کامران بخاری کا کہنا ہے کہ ’’سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں جن فوجی معاہدوں پر پابندی لگائی گئی تھی ان میں پاکستانی فوج کے لیے سازوسامان کی خرید و فروخت سے متعلق معاہدے بھی شامل تھے۔ اس وقت جو F-16 کی ڈیل ہوئی ہے اس میں محض مرمت اور انہیں استعمال کے قابل بنانا شامل ہے۔ یہ پاکستان کے لیے اہم ہے مگر یہ ماضی کی نسبت کم فوجی امداد کی بحالی کی منظوری کا منصوبہ ہے۔‘‘
خیال رہے گزشتہ مہینے امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کو F-16 طیاروں اور ان کے آلات کی مرمت میں مدد کے لیے تقریباً 450 ملین ڈالر مالیت کی منظوری کا منصوبہ پیش کیا ہےجس پر صدر ٹرمپ کے دور میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔