وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی سے عوام کے درمیان بے پناہی کا احساس عام ہو گیا
اسلام آباد (ایجنسیاں)تسلسل کے ساتھ ہونے والی بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ جگہ جگہ قیامت صغریٰ کا منظر دیکھنے کو مل رہاہے۔ ہرچند کہ ملک کے کئی خطوں میں بچاو کے کام میں فوج کی بھی مدد لی جارہی ہے، لیکن وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی سے عوام کے درمیان بے پناہی کا احساس عام ہو گیا ہے۔ دریں اثناء خبر ہے کہ خیبر پختونخوا کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں شدید بارشوں اور ندی نالوں میں طغیانی کے باعث شدید سیلابی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔
سرکاری طور پر جاری کردہ اور مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں وادیٔ سوات، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے جنوبی اضلاع سر فہرست ہیں۔دریائے سوات میں شدید طغیانی کے بعد سوات، چار سدہ، نوشہرہ اور پشاور میں دریا کے کنارے آبادیوں میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے اور حکام نے تمام اضلاع کی انتطامیہ کو الرٹ رہنے کی ہدایت کر دی ہے۔سرکاری طور پر جاری کردہ بیانات اور متاثرہ لوگوں کے مطابق جمعرات کے روز سے کالام اور بحرین کے مقام پر دریائے سوات میں شدید سیلاب اور طغیانی کا سلسلہ جاری ہے۔سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی شہزاد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دریائے سوات میں شدید طغیانی کے باعث سیاحتی قصبے کالام کی تاریخی جامع مسجد میں پانی داخل ہو گیا جب کہ دریا کے کنارے ہوٹل، دکانیں اور دیگر املاک متاثر ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بحرین اور مدین میں سیلاب کے باعث کم از کم 100 مکانات تباہ، کئی ہوٹل اور رابطہ پل ریلے میں بہہ گئے جب کہ کالام روڈ ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی ہے۔ اسی طرح بحرین بازار بھی سیلاب میں ڈوب گیا جب کہ مدین چیل اور گردونواح کے علاقے بھی سیلاب سے متاثر ہیں۔
سوات میں سیدوشریف اور مینگورہ کو تحصیل کبل اور مٹہ کو ملانے والے ایوب پل اور کانجو چوک کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے ۔
سوات میں سیلاب سے حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر سوات نے جمعے کی صبح جاری ایک بیان میں کہا کہ مینگورہ شہر سمیت دریائے سوات کے کنارے آباد افراد کے لیے الرٹ جاری کیاگیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پروونشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے دریائے سوات میں خوازہ خیلہ اور اس سے منسلک ندی نالوں میں اونچے درجے کے سیلاب کی پیش گوئی کی ہے ۔ اس مقام پر دریائے سوات میں پانی کی سطح دو لاکھ 27 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی ہےجو دریا اور نالوں کے آس پاس رہنے والی آبادی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔سیلابی صورتحال میں گھرے لوگ مدد کے منتظر ہیں،جن کے درمیان کھلی ناراضگی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، جبکہ بہت سے لوگ اس تباہی کو فلماتے ہوئے حکومت کی توجہ بہ انداز دیگر مبذول کرانے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
اسی درمیان خبر ہے کہ سیلابی تباہ کاریوں سے دوچار پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا تازہ بارشوں کے بعد ملک کے دیگر حصوں سے مواصلاتی رابطے منقطع ہو گئے ہیں۔ اب تک صوبے میں 235 شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ زخمی اور لاہتہ اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح ہزاروں لوگ بارشوں اور سیلاب کی زد میں آکر بے گھر ہو گئے ہیں۔
سیلابی تباہ کاریوں نے مواصلاتی رابطوں کو بھی غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے ایک ٹویت کے مطابق تیز اور مسلسل بارشوخ کی وجہ سے آپٹیکل فائبرکیبل، وائس اور ڈیٹا سروسز بھی بری طرح متاثرہو ہو چکی ہیں۔
پی ٹی اے کے مطابق ان کے اثرات کوئٹہ سمیت دوسرے بڑے شہروں میں بھی ہوئے ہیں۔ اس ماضی میں کبھی نہ پیدا ہونے والی صورت حال میں بہتری لانے اور رابطے بحال کرنے کے لیے کوششیں شرو ع کر دی گئی ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے جمعہ کے روز کہا ہے کہ ان کی کئی ملکوں کے سفیروں اور سینئیر سفارتکاروں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ تاکہ انہیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے وسائل فراہم کرنے کے لیے کہا جا سکے۔
ریلوے کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ انہی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں انے والے سیلاب سے کولپور اور مچھ کے درمیان ریلوے کا ایک اہم پل بھی ٹوٹ گیا ہے۔ ریلوے کا یہ پل درہ بولان کے قریب تھا۔ اس کے نتیجے میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کا بقیہ پورے ملک سے ریل رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
علاوہ ازیں چاروں ہائی ویز جو صوبہ بلوچستان کو ملک کے دوسرے تین صوبوں سے ملاتی ہیں ان ہائی ویز کے اہم پل بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ اس طرح کوئٹہ سمیت پورے صوبہ بلوچستان کے سڑک کے راستے مسدود اور رابطے کٹ گئے ہیں۔
اب تک صوبے میں سیلاب کی وجہ سے 235 شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے مکانات طوفانی بارشوں اور سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔