پنجاب پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے میاں بیوی کو جیل کے اندر تنہائی میں ملنے کی سہولت فراہم کی ہے
نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):حال ہی میں پنجاب کے قیدیوں کو ایسی سہولت دی گئی جو بہت زیادہ مباحثوں کا باعث بن رہی ہے۔ یہ سہولت لینے والے پہلے قیدی گرجیت سنگھ نے کہا کہ ’جیل ایک جیل ہے۔ کسی بھی جیل میں قیدی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ ڈپریشن میں رہتا ہے لیکن گذشتہ دنوں جب میری بیوی جیل میں مجھ سے ملنے آئی اور ہمیں یہاں چند گھنٹے تنہائی میں گزارنے کی اجازت ملی۔ یہ میرے لیے ایک بڑی راحت تھی۔‘
گرجیت سنگھ پر قتل کا الزام ہے اور ان کی عمر 60 سال ہے اور وہ پنجاب کے ضلع تارن تاران کی گوندوال جیل میں قید ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرجیت اس سہولت کے لیے حکومت پنجاب کے شکر گزار ہیں۔ درحقیقت پنجاب پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے میاں بیوی کو جیل کے اندر تنہائی میں ملنے کی سہولت فراہم کی ہے۔
اس قانون کے بعد جیل میں قیدی اپنے شوہر یا بیوی سے تنہائی میں مل سکیں گے۔ اس ملاقات کے دوران وہ جسمانی تعلقات بھی قائم کر سکتے ہیں۔
گرجیت کہتے ہیں کہ ’ہم شادی شدہ ہیں، شادی محبت کا مقدس رشتہ ہے۔ اس لیے اب جب حکومت شادی شدہ جوڑوں کو جیل میں ذاتی ملاقات کا موقع دے رہی ہے تو ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘
پنجاب میں اس سے قبل قیدیوں کو کسی ملاقاتی سے جسمانی رابطہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں فون پر بات کرنے یا فاصلہ رکھنے کا حکم تھا۔ اس دوران ان کے درمیان شیشے کی دیوار تھی۔
پنجاب کے خصوصی ڈائریکٹر جنرل (جیل خانہ) ہرپریت سدھو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جو شریک حیات جیل میں نہیں، اسے سزا دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قیدیوں کی کشیدگی پر قابو پایا جائے اور ان کی معاشرے میں واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ قیدیوں کو پنجاب کی جیلوں میں تنہائی میں اپنے ساتھی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ یہ ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا پائلٹ پروجیکٹ ہے۔‘
’20 ستمبر کو، یہ سہولت پہلی تین جیلوں میں شروع کی گئی تھی۔ 3 اکتوبر تک ریاست کی 25 جیلوں میں سے 17 جیلوں میں یہ سہولت بحال کر دی گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جوڑوں کے درمیان جنسی تعلقات ایک ضرورت ہے۔ کئی ممالک میں جیلوں میں اس کی اجازت ہے۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ عدالتوں کے ایسے بہت سے احکامات ہیں، جو ایسے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ایک ہٹ تھا۔ پہلے ہفتے میں ہی قیدیوں کی جانب سے میاں بیوی سے ملنے کی اجازت کے لیے 385 درخواستیں موصول ہوئیں۔انھوں نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ ’میں کئی مہینوں سے اپنے خاندان سے نہیں ملا تھا۔ یہ بات مجھے اندر سے پریشان کر رہی تھی لیکن اس منصوبے کی وجہ سے مجھے جیل کے اندر اپنی بیوی سے اکیلے ملنے کی اجازت مل گئی۔ اس نے مجھے توانائی سے بھر دیا۔‘
بی بی سی کے نامہ نگارنے گوندوال صاحب کی ایک جیل کا دورہ کیا۔ ہر جیل کی طرح یہاں بھی ڈبل کلیئرنس سکیورٹی سسٹم ہے یعنی مین گیٹ کے بعد دوسرے گیٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اندر جا کر دیکھا کہ قیدیوں کو شوہر یا بیوی سے ملنے کی سہولت کے لیے پہلی منزل پر ایک کمرہ بنایا گیا ہے۔ کمرے میں ایک ڈبل بیڈ اور واش روم بھی ہے۔ ایک میز، دو کرسیاں، ایک چھوٹا سٹول، پانی سے بھرا ہوا جگ اور دو گلاس بھی رکھے ہیں۔ جیل سپرنٹنڈنٹ للت کوہلی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب میاں بیوی ملتے ہیں تو کمرے کو باہر سے بند کر دیا جاتا ہے۔ جوڑے کو دو گھنٹے تک اندر رہنے کی اجازت ہے۔
اس دوران اگر انھیں کوئی ضرورت محسوس ہو تو وہ وہاں گھنٹی بجا سکتے ہیں۔ کسی دوسرے جیل سپرنٹنڈنٹ کی طرح، کوہلی کو شوہر اور بیوی کے درمیان اس طرح کی ملاقات کی اجازت دینے یا مسترد کرنے کا حق ہے۔اس دورے کے دوران جوڑوں کو کنڈوم بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
کوہلی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دورے کی اجازت دینے میں قیدی کے اچھے برتاؤ کا ریکارڈ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ فی الحال ایسی ملاقات کی اجازت صرف میاں بیوی کو ہے۔قواعد کے مطابق اس دوران تمام ایگزٹ پوائنٹس اور کھڑکیاں بند کردی جاتی ہیں۔
پنجاب حکومت نے اپنے نوٹس میں ازدواجی زندگی کے معنی بتانے کے لیے لغت کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ شادی شدہ جوڑے جیل میں اپنے دورے کے دوران جنسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دوروں کا مقصد خاندانی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ اس سے قیدیوں کے بہتر طرز عمل کو فروغ ملے گا اور وہ جیل کے منفی اثرات سے بھی بچ جائیں گے اور قیدیوں کی بحالی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت کے نوٹس میں کہا گیا کہ کئی ممالک میں اس طرح کی ملاقاتوں کی اجازت ہے۔ ان میں امریکہ، فلپائن، کینیڈا، سعودی عرب، جرمنی، آسٹریلیا، برازیل، فرانس سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔
ان ممالک میں اس طرح کی ملاقاتوں کے لیے خصوصی قوانین ہیں۔ ہرپریت سنگھ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اس وقت ایسا کوئی اصول نہیں۔ اکثر قیدی اور ان کے اہلخانہ شادی شدہ افراد کے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے انھیں پیرول پر رہا کرنے کے لیے درخواستیں لے کر عدالت میں جاتے رہے ہیں۔ اس سال عدالت نے ایک خاتون کی ایسی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ اس خاتون نے اپنے جیل میں بند شوہر کی پیرول پر رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کا شوہر قتل کا ملزم جیل میں تھا۔
ہریانہ حکومت نے سنہ 2021 میں جسٹس ایچ ایس بھلا کی قیادت میں جیل اصلاحات کمیٹی بھی بنائی تھی تاکہ قیدیوں کو اس طرح کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اصول بنائے جائیں۔
جیل حکام نے بتایا کہ سدھو موسے والا قتل کیس کے تمام 18 ملزمان گوندوال صاحب جیل میں بند ہیں۔ اسے ریاست کی سب سے محفوظ جیل سمجھا جاتا ہے۔تاہم ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ایسی ملاقاتوں میں گینگسٹرز اور زیادہ خطرناک قیدیوں کو اپنے شریک حیات سے ملنے کی اجازت نہیں۔قواعد کے مطابق ہائی رسک قیدیوں، گینگسٹرز اور دہشتگردوں کو یہ سہولت نہیں ملے گی۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں، جنسی مجرموں اور گھریلو تشدد کا الزام لگانے والوں کو بھی یہ سہولت نہیں ملے گی۔ جن قیدیوں کو ٹی بی، ایچ آئی وی، جنسی بیماریاں ہیں انھیں بھی یہ اجازت نہیں ملے گی۔ ایسے میں جیل کے ڈاکٹر سے کلیئرنس لینی ہوگی۔
پچھلے تین ماہ کے دوران جیل میں کوئی جرم کرنے والوں کو بھی یہ سہولت نہیں ملے گی۔ تین ماہ سے ڈیوٹی نہ کرنے والے قیدیوں کو بھی اس سہولت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اچھا سلوک نہ کرنے والے اور جیل کے نظم و ضبط کو توڑنے والوں کو بھی یہ سہولت نہیں ملے گی۔
اس قاعدے کے مطابق ایسے قیدیوں کو ترجیح دی جائے گی، جو طویل عرصے سے جیل میں ہیں۔ جن کا ایک بچہ ہے انھیں بھی ترجیح دی جائے گی۔ جو لوگ پیرول کے حقدار ہیں انھیں ترجیحی فہرست میں سب سے نیچے رکھا جاتا ہے کیونکہ ایسے قیدیوں کو ہر چھ ماہ میں ایک بار گھر جانے کا موقع ملتا ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے قیدیوں کو دی جانے والی سہولیات پر تنقید بھی شروع ہو گئی ہے۔سدھو موسے والا کی والدہ چرن کور بھی قیدیوں کو دی جانے والی ’اتنی زیادہ سہولیات‘ کے واضح نقادوں میں شامل ہیں۔اس قتل کیس کے ایک ملزم دیپک تینو کے جیل سے فرار ہونے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’پنجاب حکومت جیلوں میں غنڈوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔‘
دیپک، موسے والا قتل کیس کے ملزم لارنس وشنوئی کا قریبی ساتھی تھا۔ چرن کور نے جیلوں میں قیدیوں سے ملاقات کے دوران ’بستر‘ کے انتظام کی طرف انگلی اٹھائی۔لیکن پنجاب حکومت کے اس نئے قدم سے قیدیوں اور ان کے اہلخانہ میں خوشی کی فضا ہے۔
یہ سہولت حاصل کرنے والے سب سے پہلے گرجیت سنگھ نے کہا کہ اس طرح نہ صرف پنجاب کی تمام جیلوں میں بلکہ دیگر ریاستوں کی جیلوں میں بھی اسے بحال کیا جانا چاہیے۔ یہ جیلوں میں اصلاحات کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا۔