نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک): بالآخرجنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن کو ضمانت کے بعد آج رہا کردیا گیا ہے۔ انہیں دو سال سے زائد عرصے سے بغیر ٹرائل کے حراست میں رکھا گیا تھا۔ جنوب مغربی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن کو 28 ماہ جیل میں بند رہنا پڑا۔ خیال رہے کہ لکھنؤ کی ایک عدالت نے کل ہی صدیق کپن کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ البتہ خصوصی عدالت کے جج جو ان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کر رہے ہیں، بار کونسل انتخاب میں مصروف تھے جس کی وجہ سے بدھ کو ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی تھی یوں آج انہیں جیل سے آزادی ملی۔
میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضمانت کی شرائط کے مطابق صدیق کپن کو آئندہ چھ ہفتوں تک دہلی میں ہی رہنا ہوگا اور ہر پیر کو حضرت نظام الدین کے تھانے میں حآضری بھی لگانی ہوگی،یعنی یہاں انہیں ہر ہفتے رپورٹ کرنا ہوگا۔
صدیق کپن کو پانچ اکتوبر 2020 کواس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی مبینہ اجتماعی زیادتی اور قتل کے معاملے کی رپورٹ کے لیے ہاتھرس جا رہے تھے۔ اس واقعے کے خلاف پورے ملک میں کئی دنوں تک احتجاج جاری رہا تھا۔صحافی صدیق کپن کے ساتھ مزید تین افراد کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جن میں ٹیکسی ڈرائیور بھی شامل تھا۔
پولیس نے پہلے ان کے خلاف ذات برادری کی بنیاد پر بدامنی اور مذہبی کشیدگی پیداکرانے کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔ بعد ازاں ان پر ملک سے غداری اور انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے علاوہ انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ (ای ڈی) نے فروری 2022 میں صدیق کپن کے خلاف انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں تشدد برپا کرانے کے لیے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) سے رقوم حاصل کی۔ ذہن نشیں رہے کہ اس گروپ یعنی پی ایف آئی پر پانچ سال کی پابندی لگادی گئی ہے۔
دھیان رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال نو ستمبر کو یو اے پی اے کیس میں ان کی ضمانت منظور کی۔ بعد ازاں الہ آباد ہائی کورٹ نے 23 دسمبر کو انہیں منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت دی۔ لیکن ضمانت کی منظوری کے باوجود کپن کو ایک ماہ سے زائد عرصے تک جیل میں مزید رہنا پڑا۔صدیق کپن کی گرفتاری کے خلاف صحافیوں کی متعدد تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے احتجاج کیا تھا اور ان پر یو اے پی اے اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمات کی مذمت کی تھی۔ صحافیوں کی ایک تنظیم دہلی یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے نے صدیق کپن کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضمانت منظور ہونے کے باوجود صدیق کپن کو ایک ماہ سے زائد جیل میں رہنا پڑا جو افسوسناک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صدیق کپن اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے لیے ہاتھرس جا رہے تھے۔ لیکن انہیں بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کیوں انہیں جیل میں رکھنا چاہتی تھی۔