اس عالمی پلیٹ فارم پربھی مودی نے "سب کا ساتھ سب کا وکاس ” کا نعرہ دہرایا
نئی دہلی( یو این آئی ) وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ کوجی- 20 ممالک کے 18 ویں دو روزہ سربراہی اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے یہاں آئے مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کا استقبال کیا اور کہا کہ موجودہ عالمی منظر نامے میں دنیا کو ایک ساتھ اور صحیح سمت میں لے جانے کےلئے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا پریاس‘ کی سوچ اہم ہے۔
بھارت منڈپم میں جی 20 ممالک کے سربراہی اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے مسٹر مودی نے موجودہ عالمی ماحول میں ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا پریاس‘ کے منتر کو دہرایا اور کہا کہ ہندوستان میں یہ ’پیپلز جی- 20 ‘ بن گیا ہے۔ دنیا میں اعتماد کے فقدان کا بحران ہے اور سب کو مل کر اس بحران پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے صدیوں پرانے مسائل کو حل کرنے کا وقت آگیا ہے اور 21ویں صدی کی جی- 20 کانفرنس پرانے چیلنجوں کے نئے حل تلاش کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہ وقت ایک ساتھ چلنے کا ہے کیونکہ 21ویں صدی کا یہ وقت دنیا کو ایک نئی سمت دینے والا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا ’’آج، جی- 20 کے صدر کے طور پر، ہندوستان دنیا سے عالمی اعتماد کی کمی کو اعتماد اور خود کفیلی میں بدلنے کی اپیل کرتاہے۔ یہ ہم سبھی کے لئے ایک سالت مل کر آگے بڑھنے کا وقت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ وقت ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس‘ کے منتر کے ساتھ چیلنجوں سے نمٹنے کا وقت بن سکتا ہے۔ چاہے وہ چیلنجز شمال اور جنوب کے درمیان تقسیم کے ہں، مشرق اور مغرب کے درمیان فرق کے ہوں، خوراک اور ایندھن کا انتظام کے ہوں، دہشت گردی، سائبر سیکیورٹی، صحت، توانائی یا پانی کی حفاظت کے ہوں، ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے ان سب چیلنجوں کا ٹھوس حل تلاش کرنا ہو گا۔
سالانہ اجلاس کے موقع پر دارالحکومت نئی دہلی کو بین الاقوامی ایئرپورٹ سے شہر کے مرکز تک رنگ برنگے پودوں، فواروں، اسٹریٹ لائٹس، برقی قمقموں اور جی20 کے لوگوز کے ساتھ سجایا گیا ہے۔
ذہن نشیں رہے کہ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کا گروپ 1990 کی دہائی کے آخر میں ایشیائی مالیاتی بحران کے تناظر میں قائم کیا گیا تھا تاکہ اس قسم کے معاملات کا اجتماعی طور پر حل نکالا جائے۔ اب اس گروپ نے ہنگامی عالمی مسائل جیسے کہ خوراک، موسمیاتی تبدیلی اور 2021 میں یوکرین پر روسی حملے کے عالمی اثرات کو حل کرنے کے لیے ایک فورم کی شکل اختیار کر لی ہے۔گروپ کے ارکان میں 20 ممالک ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ اور امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ہر سال گروپ کی قیادت ایک مختلف رکن کرتا ہے جو اس کی پالیسی میٹنگز اور اختتامی اجلاس کی میزبانی کرتا ہے۔ ہندوستان نے گزشتہ سال انڈونیشیا سے جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی جسے وہ برازیل کے حوالے کردے گا۔ رواں سال کا جی20 سمٹ گروپ کا 18 واں اور میزبان کے طور پر ہندوستان کا پہلا اجلاس ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس اجلاس کی میزبانی کو ملک بھر میں نمایاں کیا جائے جس کی وجہ سے یہ اجلاس انڈیا کے عالمی طاقت بننے کے امیج کو اُجاگر کرنے کی مہم بن چکا ہے۔ بنگلور میں عوامی پالیسی مرکز تکشاشیلا انسٹی ٹیوشن کے ایک تحقیقی تجزیہ کار آدتیہ رام ناتھن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہندوستان نے ماضی میں کسی دوسرے میزبان ملک کے مقابلے میں اس سربراہی اجلاس پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ تمام اہم ایونٹس زیادہ ہائی پروفائل ہیں اور ان سے انڈیا کے لیے اچھی پریس پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ہندوستان کی چاند کے قطب جنوبی پر کامیاب لینڈنگ اور پچھلے ہفتے پہلے شمسی مشن کے آغاز کے فوراً بعد منعقد ہونے والا یہ اجلاس کتنا کامیاب ہو گا اس کا انحصار صرفہندوستان پر نہیں ہے۔آدتیہ رام ناتھن نے کہا کہ ’جی 20 آج چند سال پہلے سے زیادہ منقسم ہے۔ عالمی سیاست 2020 کے بعد سے تین عوامل کی وجہ سے ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے: وبائی بیماری، روس-یوکرین جنگ، اور چین کے کئی ممالک کے ساتھ بگڑتے تعلقات۔‘
چین کے تعلقات نہ صرف امریکہ بلکہ ہندوستان کے ساتھ بھی کشیدہ ہیں اور گزشتہ تین برسوں سے ہمالیائی سرحد پر وقفے وقفے سے اس کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے بعد چینی صدر شی جن پنگ دوسرے سربراہ مملکت ہیں جنہوں نے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا عندیہ دیا۔ولادیمیر پوتن گزشتہ سال انڈونیشیا میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں بھی موجود نہیں تھے۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب کسی چینی رہنما نے 2008 میں منعقد کیے گئے اجلاس کے بعد کسی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ تاکشاشیلا انسٹی ٹیوشن میں چائنا سٹڈیز کی فیلو منوج کیولرامانی کہتی ہیں کہ’ایسا نہیں ہے کہ بیجنگ گروپ کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تاہم وہ انڈیا کی گلوبل ساؤتھ کے رہنما کے طور پر توثیق ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔‘