سی بی سی آئی ڈی کی تحقیقات میں انکشاف ، وقف بورڈ کے عہدیداران بھی حیرت زدہ
حیدرآباد: وقف جائیدادوں کی تباہی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ سی بی سی آئی ڈی تحقیقات کے دوران اوقافی جائیدادوں کی تباہی کے ایسے انکشافات ہونے لگے ہیں کہ خود وقف بورڈ کے عہدیدار حیرت زدہ ہیں کہ کس طرح سے اوقافی جائیدادوں کے متعلق بورڈ کی خاموشی اور بے اعتنائی نے نقصان پہنچایا ہے۔ وقف جائیداد اللہ کی امانت ہیں اور ان امانتوں میں ہونے والی خیانت کے متعلق جاری تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ بیگم بازار کولسہ واڑی میں 3630مربع گز اراضی پر قبضہ کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس جائیداد کو جعلی دستاویزات کے ذریعہ حاصل کرتے ہوئے اسے زرخرید قرار دیا جانے لگا ہے۔ سیاست نیوزکی خبر کے مطا بقگزٹ میں درج اس موقوفہ اراضی کی تمام تر تفصیلات و دستاویزات تلنگانہ ریاستی وقف بورڈ کے پاس موجود ہیں لیکن اس کے باوجود اس جائیداد پر قابض شخص کی جانب سے یہ ادعا پیش کیا جا رہاہے کہ وقف بورڈ نے 1962 میں اس جائیداد کو وقف سے خارج کردیا ہے جبکہ وقف کی گئی کسی بھی اراضی یا جائیداد کو وقف سے خارج کرنے کا کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ 1962 کے ایک مکتوب کی بنیاد پر کئے جانے والے اس دعوے نے وقف بورڈ کے عہدیدارو ں حیرت میں مبتلاء کردیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ 1962 میں وقف بورڈ کی جانب سے اس طرح کے کوئی مکتوبات جاری نہیں کئے جاتے تھے اور نہ ہی اس طرح کے لیٹر پر کوئی احکام کی اجرائی عمل میں لائی جاتی تھی لیکن اب جعلی مکتوب و احکام کی بنیاد پر کئے جانے والے اس دعوے میں موقوفہ اراضی کو معاہدہ بیع کے تحت خریدی گئی اراضی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ وقف سروے کے بعد 1985 میں حکومت آندھراپردیش کی جانب سے جاری کردہ گزٹ اعلامیہ میں 1938 نمبر موجود اندراج میں واضح ہے کہ جملہ 3630مربع گز اراضی موجود ہے ۔ گذشتہ یوم سی بی سی آئی ڈی عہدیداروں کے وقف بورڈ کے عہدیداروں وملازمین کے ہمراہ کئے جانے والے دورہ کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ ریاستی وقف بورڈ کے پاس یہ جائیداد تکیہ چارکوڑی اوردرگاہ سید شاہ بہادر شاہ و دیوان شاہ ولی کے تحت موقوفہ ہے لیکن اس جائیداد کے کچھ حصہ پر جو قابض ہے اس شخص نے سروے کے دوران ا س بات کا دعویٰ کیا کہ یہ ان کی زرخرید اراضی ہے اور جب اسے دستاویزات پیش کرنے کے لئے کہا گیا تو مذکورہ شخص نے 25اکٹوبر 1962 کا ایک مکتوب عہدیداروں کے حوالہ کیا جسے بورڈ کے ذمہ داروں نے جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مکتوب پر جو تحریر ہے وہ بورڈ کی نہیں ہے اور 1962 میں مسلم وقف بورڈ ہوا کرتا تھا جبکہ یہ مکتوب آندھراپردیش وقف بورڈ کے نام سے تیار کیا گیا ہے۔ اس مکتوب میں دیوڑھی نصیب یار جنگ سے متصل اراضی کو وقف سے خارج کئے جانے کے دعوے کے ساتھ جاری کیاگیا ہے اور جاری کردہ معتمد آندھرا پردیش مسلم وقف بورڈ کی دستخط ہے ‘ دستخط کی جگہ آندھراپردیش مسلم وقف بورڈ ہے اور لیٹر پیاڈ پر آندھراپردیش وقف بورڈ تحریر ہے جس سے مکتوب کی تیاری میں کی گئی دھاندلی ثابت ہوتی ہے۔ بیگم بازار شہر حیدرآباد کے ان انتہائی قیمتی علاقوں میں شامل ہے جہاں جائیدادوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اس جائیداد پر لینڈ گرابرس کی نظریں ہیں ۔ذمہ داران وقف بورڈ اگر فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے اس جائیداد کے تحفظ کے لئے اقدامات کو یقینی بناتے ہیں تو ایسی صورت میں 3630مربع گز انتہائی قیمتی اراضی کو محفوظ کرتے ہوئے وقف بورڈ کی آمدنی میں زبردست اضافہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور اگر اس اراضی کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس اراضی پر اپنا دعویٰ پیش کرنے والے لینڈ گرابرس اسے اپنی ملکیت قرار دینے کے لئے اسی طرح فرضی دستاویزات کو بنیاد بناتے ہوئے وقف بورڈ کو عدالت میں اپنی جائیداد ثابت کرنے کیلئے مجبور کریں گے۔م