ڈھاکہ (یو این آئی) بنگلہ دیشی صحافی شفیق الاسلام کاجول نے کہا کہ انہیں 53 دن تک ایک زیر زمین سیل میں رکھا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ اس کے ساتھ چڑیا گھر میں جانوروں جیسا سلوک کیا جاتاتھا، آنکھوں پر ہمیشہ کے لیے پٹی بندھی ہوئی تھی، اور صرف کھانے کے لیے ہاتھوں سے ہتھکڑی ہٹائی جاتی تھی۔ بی بی سی نے کاجول کے حوالے سے بتایا کہ ‘کبھی کبھی پوچھ گچھ کے لیے لے جانے سے پہلے مجھے پیٹتے تھے۔ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ کتنا دردناک تھا۔ انہوں نے مجھ سے ان کہانیوں کے بارے میں پوچھا جو میں نے لکھی تھیں۔ مجھے بہت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں اب بھی اس کے بارے میں بات کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہوں۔”
بی بی سی کاجول کے اس انکشاف کوآزادانہ طور پر تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب وہ اپنی کہانی اتنی تفصیل سے شیئر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انسانی حقوق نہیں ہیں اور میں مسلسل خوف میں رہتا ہوں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کاجول نے اسی ہفتے ہم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، جب بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے دن کے موقع پر بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کا منصوبہ بنایا گیا تھا، سکیورٹی فورسز کی ڈھاکہ میں حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے ارکان کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی۔
بی این پی لوگوں سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی قیادت والی حکومت اوران کی عوامی لیگ پارٹی کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر اترنے کی اپیل کررہی ہے۔ ان کے اہم خدشات میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے مطالبات، زندگی گزارنے کے لئے بڑھتے ہوئے اخراجات پر تشویش اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹیں شامل ہیں۔پولیس نے اپوزیشن کے عہدیداروں کو بھی حراست میں لیا ہے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کسی بھی قسم کی اختلاف رائے کو کچلنے کی براہ راست کوشش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ وہ آزادی اظہار پر نکیل کس رہی ہے۔بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ نے بی بی سی کو بتایا کہ کاجول کو کچھ لڑکیوں کی تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بعد سوشل میڈیا پرجاری کرکے ان لڑکیوں کا استحصال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔