نئی دہلی:کوڈ بحران نے پسماندہ طبقہ کے بچوں کی تعلیمی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ سوشل ورک نے اور انکور سوسائٹی فار الٹرنیٹوز ان ایجوکیشن نے بحران جیسے حالات میں پس ماندہ طبقہ کے بچوں میں لچیلے پن کی تعمیر میں تخلیقیت کے رول کی تفہیم کے لیے ایک انٹر ایکٹیو سیشن منعقد کیاگیا اور اس میں غور و خوض کیا گیا۔اسٹوڈینٹ ایڈوائزر ڈاکٹر رشمی جین نے انتیس مارچ دوہزار تئیس کو شعبے کے سمینار روم میں منعقدہ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔شعبہ سوشل ورک کی کوشش ہوتی ہے کہ فیلڈ میں کام کرنے والے کارکنان کے ساتھ اشتراک قائم ہو، یہ سیشن اسی مخلصانہ کوشش کا نتیجہ ہے۔
صدر شعبہ پروفیسر نیلم سکھرامنی نے اجلاس میں میٹنگ کی تھیم متعارف کراتے ہوئے شرکا سے کہاکہ وہ تعلیم کے معنی سے متعلق اور تعلیم کے حصول سوال پر غور وخوض کریں۔انھوں نے شرکا سے کہاکہ وہ ان سوالات پر روایتی تحدیدات اور معیار سے ہٹ کر منفرد انداز میں غوو خوض کریں۔دوہزاربیس کی قومی تعلیمی پالیسی کا زور نوجوانوں میں تخلیقیت،دانشوارنہ تجسس اورجذبہ خدمت کی نشو نما بھی اس تصور سے میل کھاتاہے۔
اجلاس کے پہلے حصے میں شعبے کے دو سابق طالب علموں محترمہ حدیقہ الیاسر اور جناب ویپل کمار جھا نے تعلیم پر بحران کے مضر اثرات سے متعلق اپنے ماسٹر ڈیزرٹیشن سے چند تحقیقات پیش کیں۔محترمہ حدیقت کی تحقیق پلوامہ،جموں اور کاشمیر میں طویل عرصے تک لاک ڈاؤن میں پھنسے بچوں کی سماجی و تعلیمی زندگی پر مرکوز تھی اورجناب ویپل کمار جھا نے آن لائن آموزش کے پلیٹ فارموں تک رسائی اور ان سے پیدا ہونے والے مواقع کا جائزہ لیا تھا۔ انھوں نے مختلف اپلی کیشنز کے استعمال کی مدد سے آن لائن آموزش کو مزید تجرباتی بنانے کی ضرورت پر دیا اور یہ ان کے تحقیقی ماحصل پر مبنی تھا۔
انکر سوسائیٹی فار النٹرنیٹوز ان ایجوکیشن نے تحقیقی پرزینٹنشن دیے اور اپنے کام کرنے کے فلسفے کی وضاحت کی۔انکر کی ٹیم میں سے محترمہ شرمیلا بھگت،محتر م یجوویندر ناگر اور محترمہ ریشیکا نے اپنے کام بھی ساجھا کیے جو بچوں کو تنقیدی اندا زمیں سوچنے اور غور وفکر کرنے پرآمادہ کرتے ہیں اوربچو ں کو خودمختار بنانے کے لیے تعلیم ایک آلہ ہے اس سے متعلق اپنے کام لوگوں کے سامنے پیش کیے۔بچوں میں اعتمادکی تعمیر کے لیے اور انھیں اپنی سماجی شناخت کو جینے کے لیے ایجوکیشن ایک آلہ ہے۔اسی نکتے پر زور دیا گیا۔
سماجی و معاشی طورپر پس ماندہ طبقوں میں انکر سوسائٹی کام کرتی ہے تاکہ بچے مسائل کے باوجود اپنی ذات کی شناخت کرسکیں۔بچے اپنی برادری کی کہانیاں لکھتے ہیں،انھیں مختلف میڈیم میں بیان کرتے ہیں اور خودمختاری کا احساس کرتے ہیں۔جہاں وہ رہتے ہیں اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں نہ کہ شرم و ندامت سے۔انکر ٹیم نے اپنے مختلف تجربات ساجھا کیے کہ وہ سوچنے اور غوروفکر کرنے کی قوت کا سرچشمہ بن رہے ہیں۔جب بچوں سے اوپن اینڈیڈ سوالات پوچھے جاتے ہیں تو مختلف خیالات میں منہمک ہوتے ہیں۔کہانی لکھنے والے بچوں کے تئیں برادری کا نظریہ تبدیل ہوا ہے اور اب ماحول ان کے لیے کوشش کرنے والوں کے لیے زیادہ محترم ہوگیا ہے۔
سامعین وناظرین نے بچوں میں مختلف غوروفکر کو مہمیز کرنے کے لیے انکر کی کوششوں کی بہت تعریف کی ساتھ ہی بچوں کو پلیٹ فارم مہیا کرانے کے لیے وہ کتابیں جن میں بچوں کی کہانیاں ہیں اور بچوں کے ساتھ مختلف آرٹ فارم بروئے کار لائے گئے ہیں تاکہ ساتھ ملک کر کام کیا جاسکے۔
ڈاکٹر رشمی جین نے شعبہ کی جانب سے پروفیسر نجمہ اختر(پد م شری) شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کا پروگرا م کی منظوری دینے اور تعاون دینے کے لیے شکریہ ادا کیااور ساتھ ہی اس سیشن میں شامل طلبا،فیکلٹی اراکین کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے پورے سیشن صبر و سکون سے پروگرام سنا اور اہم سوالات پوچھے،انکر ٹیم کو بھی انھو ں نے شکریہ کہا جس نے اس پروگرام کے انعقاد میں مد دبہم پہنچائی تھی۔