پھلواری شریف ( یواین آئی )فلسطین کی موجودہ صورت حال پر امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ 1880ءکے بعد سے فلسطینیوں کے ساتھ صہیونی ،یہودی اورمغربی طاقتوں نے ملکر عثمانی خلافت اورفلسطینیوں کو دھوکہ دیا، اسی طرح 1948ءمیں فلسطین کی سرزمین پر اقوام متحدہ کا اسرائیلیوں کے لیے اسرائیل اسٹیٹ قائم کردینا یہ بھی ایک دھوکہ تھا ، اس کے بعد سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینیوں کو فلسطین کے مختلف علاقے سے نکال کر غزہ بھیج دینا ایک نسل کش حملہ تھا ، جس میں ہزاروں ہزار بچے ،عورتیں ،بوڑھے اور نوجوان مارے گئے اور صہیونی یہودیوں کی نسل کشی کا مذکورہ منصوبہ آج کل جاری ہے ، یہاں تک کہ گزشتہ روز مورخہ ۷۱اکتوبر ۳۲۰۲ءکو ایک ہاسپیٹل میں بم گرایا گیا ، جس میں پانچ سو سے زیادہ بے قصور لوگ شہید ہوگئے ، اور ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 2700سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ، جن میں بڑی تعداد میں معصوم بچے ،بے گناہ عورتیں اورمعمر بزرگوں کی ہے ، اسی طرح کثیر تعداد میں لوگ زخمی ہیں ، جن کے علاج کا کوئی معقول نظم نہیں ہے ، حتیٰ کے باہر سے جاکر کوئی ان زخمیوں کی مدد بھی نہیں کرسکتا ۔ ساتھ ہی اب تک دس لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں ، جو نہایت ہی تکلیف دہ اورافسوسناک ہے ۔
امیر شریعت نے مزید فرمایاکہ 1967ءکے بعد اسرائیلیوں نے فلسطین کی وہ تمام زمین جو مصر اور اردن کے پاس تھی اس پر بھی غاصبانہ قبضہ کرلیا اورفلسطینیوں کو مختلف چھوٹی چھوٹی بستیوں میں محصور کردیا ،انہیں میں ایک علاقہ ہے جو جیل نما ہے ، اسی کو غزہ کہتے ہیں ، جو تین جانب سے ساٹھ کیلو میٹر کی دیوار اور ایک طرف سے سمندر سے گھراہواہے ، جس سے باہر نہیں جایاجاسکتاہے ، اوراندر نہیں آیاجاسکتا۔
امیر شریعت نے مزید فرمایاکہ غزہ میں ۲۲لاکھ فلسطینی رہتے ہیں اور ستر فیصد نوجوان نوکری اورتعلیم سے محروم ہیں ،بجلی ،پانی ،کھانا اوربنیادی ضرورت پر بھی اسرائیل کا مکمل کنٹرول رہتاہے اوراس پر گہری نظر بھی رکھتا ہے ،اس جیل میں غاصبانہ حکومت کا یہ حکم ہے کہ دس لاکھ لوگ شمال سے جنوب کی طرف چوبیس گھنٹہ کے اندرچلے جائیں اوراس نے کھاناپانی اورادویات کے تما م دروازے بند کردیے ہیں ،اس لیے یہ بھی یونائیٹڈ نیشن کے چارٹر کے مطابق نسل کشی ہے ، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب فلسطینی نقل مکانی کررہے ہیں تو ان پر بم برسائے جارہے ہیں ۔
انہوں نے یہ بھی فرمایاکہ اچھی بات یہ ہے کہ نیویارک میں یہودیوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت اسرائیل سے کہا کہ غزہ میں نسل کشی یہودیوں کے نام پر مت کرو ، اسی طرح یورپ اورعرب دنیا میں ہر جگہ لاکھوں لوگ اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں احتجاج کررہے ہیں ۔
امیر شریعت نے فرمایاکہ گاندھی جی نے 26نومنر 1938ءکو ہریجن اخبار میں لکھا کہ ’ ’ فلسطین اسی معنی میں عربوں کا ہے ، جس معنی میں انگلستان انگریزوں کا ہے ، یافرانس فرانسیسیوں کا ہے ،“ ۔انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو دنیا کے کسی بھی دوسرے گروہ کی طرح خود ارادیت اورخود مختاری کا بنیادی حق حاصل ہے۔ ان کا اپنی زمین ، اپنی زبان ، اپنی ثقافت پر پوراپورا حق ہے ، اور یہ حق ان سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔ آزاد ہندوستا ن کے پالیسی بنانے والوں کی پالیسی اس سلسلہ میں ہمیشہ عادلانہ رہی ہے ،کیونکہ انہوں نے جنگ آزادی کے موقع سے مسلمانوں کے اخلاق اوراخلاص کو دیکھا تھا ، اسی لیے اقوام متحدہ کی قرارد181 (29نومبر1947) کو حکومت ہند نے مسترد کردیاتھا ، یہ وہ قرارد اد ہے جس نے فلسطین کو تقسیم کیا اوراب اسے اسرائیل کے جنگی جرائم کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔اگرچہ اسرائیلی اسٹیٹ کو حکومت ہند نے 1950ءمیں قبول کرلیاتھا ، لیکن نرسمہاراو ¿ کی حکومت 1991ءتک اسرائیلی سفارت خانہ ہند کی سرزمین پر نہیںتھا ، یہ بھی تاریخ ہے کہ غیر عرب ممالک میں ہماراملک پہلا تھا ، جس نے یاسرعرفات کی پی ایل او کو ایک تشدد پسند تنظیم کے بجائے فلسطینی لوگوں کا نمائندہ تسلیم کیا تھا ، اور 1988ءمیں فلسطینی ملک کو بھی قبول کیاتھا ، خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر خارجہ نے انڈیاکے پرانے موقف کی تائید کرتے ہوئے فلسطین کے ساتھ یجہتی کا اظہار کیا ، اورمسئلہ فلسطین کے مستقل حل کی وکالت کی ، اسی طرح ہند کی اکثریت کے جذبات کا احترام کرنے والے لیڈران نے فلسطین کے سفیر سے ملکر کہا کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں ۔امت کے کسی بھی فردکو کہیں بھی درد ہو اس کے ازالہ کی کوشش پوری امت کی ذمہ داری ہے ، اسی کے پیش نظر حضرت امیر شریعت نے حکومت ہند اور پوری امت مسلمہ کے غیور حکمرانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ وہ اس ناگفتہ بہ حالات میں فلسطین اور خصوصا غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیں ، عالمی پیمانہ پر ان کے تعاون کے لیے آگے آئیں ، ان کے درد کو محسوس کریں ، جس کرب میں وہ مبتلا ہیں اس سے باہر نکالنے کی کوشش کریں۔امیر شریعت نے کہا کہ اسرائیل مسلسل مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی کرتارہاہے ، جب کہ اسے خوب معلوم ہے کہ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول رہاہے ، مسجد اقصیٰ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایمانی رشتہ ہے ، ہرصاحب ایمان مسجد اقصیٰ سے اسی طرح عقیدت ومحبت رکھتاہے جس طرح وہ مسجد حرام اورمسجد نبوی سے رکھتاہے ، حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” لاتشد الرحال الا الیٰ ثلاثة مساجد ، مسجد الحرام ومسجدالاقصیٰ ومسجدی “ (البخاری) لہٰذا کوئی بھی مسلمان یہ گوارہ نہیں کرسکتا ہے وہ مسجد اقصی اوربیت المقدس سے دستبردار ہوجائے ۔ اس لیے ہرمسلمان کو مسجد اقصیٰ کے لیے ،فلسطینیوں کے لیے بل کہ ہر وہ جگہ جہاں مسلمان دبائے جارہے ہیں اورانسانیت کچلی جارہی ہے ہر کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔امیرشریعت نے مسلمانان ہند سے یہ اپیل کی ہے کہ :ہر اچھے کام کے بعد ، ہرنماز کے بعد او ر خاص کر تہجد میں فلسطین کے لیے دعا کریں ۔