نئی دہلی (یو این آئی) جمعیة علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ہم آرایس ایس کے سر سنگھ چالک شری موہن بھاگوت جی اور ان کے متبعین کوگرم جوشی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ آئیے آپسی بھید بھاو اور بغض و عناد کوبھول کر اپنے پیارے وطن کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ، پر امن ،مثالی اور سپر پاور ملک بنائیں۔ انہوں نے یہ دعوت جمعیة علماءہند کے 34ویں اجلاس عام کی صدارت کرتے ہوئے دی۔انہوں نے کہا کہ ملک کے موجود ہ حالات میں جو لوگ بھی باہمی رشتوں کو استوار کرنے کے لیے ڈائیلاگ اور ایک دوسرے کے افکار و نظریات کو سمجھنے کے لیے کوشاں ہیں ، ہم ان کا استقبال کرتے ہیں اور ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ باہمی گفت و شنید ہی تمام مسائل کا حل ہے یا کم ازکم مسائل کو بڑھنے سے روکنے کا ذریعہ ہے ، اس لیے اس کا راستہ کبھی بند نہیں ہو نا چاہیے ۔اپنے بھائیوں اور پڑوسیوں سے قطع تعلق کی اسلام میںہرگز اجازت نہیں ہے ۔ جمعیة کے اکابر نے برادران وطن کے ساتھ دوش بدوش چلنے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی روش اختیار کی اور جمعیة آج بھی اسی روش پر مضبوطی سے قائم ہے ۔متحدہ قومیت اور ہندو مسلم یک جہتی کا فکر و فلسفہ جمعیة کے اکابر کی عطا کردہ وراثت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے مدمقابل ہندو تو کی موجودہ دور میں جو تشریح کی جارہی ہے اور ہندوتو کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت نہیں ہے بلکہ ہمیں صر ف ان نظریات سے اختلاف ہے ، جو سماج کے مختلف طبقات کے درمیان برابری ، نسلی عدم امتیاز اور دستور ہند کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سناتن دھرم کے فروغ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے ، اسی طرح آپ کو بھی اسلام کے فروغ سے کوئی شکایت نہیں ہو نی چاہے ے جیسا کہ ہندوستان کے تناظر میں سوامی وویکانند نے کہا تھا کہ اسلام اور سناتن دھرم یہ دونوں ہندوستان کی فتح مندی کے لیے ضروری ہیں۔انھوں نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے ۔ نفرت کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو حکومت اور انتظامیہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتی، جو انہیں کرنی چاہیے ۔ انہوں نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اکثریتی طبقے کے بارے میں مٹھی بھر نفرت پیدپھیلانے والے نقطہ نظر سے نہ سوچیں۔
انہوںنے کہاکہ ہندوستان ہمارا وطن ہے ،جتنا یہ وطن نریندر مودی اور موہن بھاگوت کا ہے ، اتناہی محمود کا ہے ۔ نہ محمود ان سے ایک انچ آگے ہے اورنہ وہ محمودسے ایک انچ پےچھے ہیں۔ساتھ ہی اس دھرتی کی خاصیت یہ ہے کہ خداکے سب سے پہلے پیغمبر ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام یہیں آئے ،یہ دھرتی اسلام کی جائے پیدائش اور مسلمانوں کا پہلا وطن ہے ۔اس لیے یہ کہنا کہ اسلام باہر سے آیا ہوا کوئی مذہب ہے ،سراسر غلط اور تاریخی اعتبار سے بے بنیاد ہے ۔اسلام اسی ملک کا مذہب ہے اور سبھی مذاہب میں سب سے قدیم اور پرانا بھی ہے ۔ اسلام کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی دین کو مکمل کرنے آئے تھے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ جب ملک کی تعلیم کی بات آتی ہے تو یہ پورے ملک کے لیے ہے ۔ ایسے میں اگرکسی ایک مذہب کی کتاب مسلط کی جائے تو یہ دستور ہند کے خلاف ہے ۔مولانا مدنی نے پسماندہ مسلمانوں پر حکومت کی پالیسیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی مسلم سماج میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے ان میں ذات پات کا نظام سب سے اہم ہے ۔ اگرچہ اسلام کی واضح تعلیمات مساوات پر مبنی ہیں ، لیکن اسلام قبول کرنے والے پرانے ذات پات کے نظام اور رسم و رواج سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوسکے ۔ اسی وجہ سے ہندوستانی مسلم معاشرہ تضادات کا شکار رہا ہے ۔
جمعیة علماءہند کے 34ویں تین روزہ عام اجلاس میں ملک وملت کی موجودہ صورت حال پر طویل بحث ہوئی۔ اجلاس میں اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں اسلامو فوبیا فروغ پارہا ہے اور مرکزی حکومت خاموش ہے ، جبکہ اسے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے ۔ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم، جدید تعلیم اور روزگار کے مواقع کو محدود کیا جا رہا ہے ۔ ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے اور یکساں سول کوڈ کے ذریعے ملک کے اتحاد و سالمیت کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے ۔اجلاس عام میں منظور کی گئی سات۱ قراردادوں میں کہا گیا کہ ایک بڑے طبقے کی جانب سے مدارس اور اسلام پر مسلسل حملے اور اس کی مذہبی، اخلاقی اور سماجی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، جبکہ مدارس غریب مسلمانوں کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مدارس سے نکلنے والے طلبہ اور علمائے کرام نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور آج بھی وہ ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ جمعیة علماءہند مدارس میں اس کے نظام کو چھیڑے بغیر جدید تعلیم کے حق میں ہے اور اس کے لیے مسلسل کوشاں ہے لیکن وہ مدارس کی تعلیم میں حکومتی مداخلت کے خلاف ہے ۔یکساںسول کوڈ پر منظور شدہ قرارداد میں کہا گیا کہ سول کوڈ کا ملک کے اتحاد اور سالمیت پر براہ راست اثر پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی جمعیة نے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ وہ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے اور طلاق ثلاثہ کے معاملے میں شرعی قوانین پر عمل درآمد کریں اور مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ اگر وہ اس پر عمل کریں گے توشریعت میں حکومتی مداخلت کی راہیں بند ہو جائیں گی ۔مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی پر منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی سروے ، کمیشن، جسٹس سچر کمیٹی اور رنگناتھ کمیٹی نے اپنی رپورٹوں میں واضح طور پر کہا تھا کہ ملک کے مسلمان دلتوں سے بھی ایک درجے نیچے ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی معیشت، پیداوار، آمدنی اور زرمبادلہ میں مسلمانوں کی بڑی شراکت ہے ۔