کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اب ہر کنبے کا ایک نمبر ہوگا۔اب ہمیں اپنے نام سے نہیں بلکہ نمبر سے پہنچانا جائے گا
سری نگر ر(یو این آئی) نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے منگل کے روز کہاکہ جموں وکشمیر میں اس وقت ایک عجیب سا وقت چل رہاہے، اس تاریخی ریاست کے ساتھ لگاتار بھید بھاﺅ اور سوتیلی ماں کا سلوک کیا جارہاہے، ناانصافیاں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہاہے، سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں کیا ہے؟
ہماری پہچان، ہماری عزت اور ہماری شناخت سب کچھ مٹانے کے بعد بھی وہ مطمئن نہیں ہیں ، آئے روز ایسے فیصلے لئے جارہے ہیں جو عوام کُش اورعوام دشمن ثابت ہورہے ہیں۔
ان باتو ں کا اظہار موصوف نے جنوبی کشمیر کے 3روزہ دورے کے پہلے دن ڈورو میں بلاک کمیٹی کے ایک اجلاس اور کوکرناگ میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ 5اگست2019کو ہمیں بند کرکے یہ کہا گیا کہ یہی لوگ جموں وکشمیر کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ہیں ،تعمیر و ترقی میں بھی یہی لوگ حائل ہیں اور لوگوں کے ساتھ بڑے بڑے وعدے کئے گئے لیکن 3سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ان وعدوں کا ایفا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہاکہ نوجوانوں سے کہا گیا تھا کہ آپ مطمئن رہئے آپ کو نوکریوں کے آرڈر گھر پہنچائے جائیں گے۔
میں سوال کرتا ہوں کہاں ہیں وہ آرڈر؟ کون سا نوجوان آج سرکاری نوکری کا آڈر لے کر چل رہاہے؟ اُلٹا پولیس ہو یا سول انتظامیہ بھرتی عمل،موجودہ حکمران ایک دن لسٹ نکالتے ہیں، دوسرے دن بوال مچتا ہے، تیسرے دن انکوائری ہوتی ہے اور چوتھے دن اس لسٹ رد کیا جاتاہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک بھی بے روزگار کو نوکری نہیں مل رہی ہے اور اگلے امتحانوں تک بیشتر عمر کی حد پر کردیتے ہیں۔ “
عمر عبداللہ نے کہا کہ نئے کام تو دور کی بات موجودہ حکمران پچھلا کیا ہو بھی سنبھال نہیں پاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جموںوکشمیر اس ملک کا تاج ہے لیکن کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ اُن کو صرف تاج کی زمین چاہئے، یہاں کے لوگوں کی اُن کو پرواہ نہیں، ہر طرح سے یہاں لوگوں ستانے میںلگے رہتے ہیں۔
اب یہاں کے لوگوں کو نیا فیملی شناختی کارڈ دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اب ہر کنبے کا ایک نمبر ہوگا۔اب ہمیں اپنے نام سے نہیں بلکہ نمبر سے پہنچانا جائے گا، ہندوستان میں یہ نمبر سسٹم کہیں موجود نہیں لیکن جموں و کشمیر کے موجودہ حکمران بنیادی ضروریات کی فراہمی سے زیادہ نمبروں کے تعین کو ترجیح دے رہے ہیں،لیکن عوام کو یہ ایک سازش نظر آرہی ہے۔
”ہمیں تو لگا تھا کہ آپ ہمارا جھنڈا اُتارنا چاہتے ہیں اور ہمارا آئین ختم کرنا چاہتے لیکن اب تو یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ آپ ہمارا نام بھی مٹانا چاہتے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے اس کا علاج بھی ہمارے پاس ہے، یہ (مرکز) ہمیشہ الیکشن سے بھاگ نہیں سکتے، کبھی نہ کبھی تو یہاں الیکشن کروانے ہونگے، اگر ہمیں اپنی پہچان کو بچنا ہے،
اگر ہمیں اپنی شناخت کو بنائے رکھنا ہے، تو پھر جب بھی انتخابات ہونگے ہمیں ان میں بڑھ چڑکر حصہ لینا ہوگا اور ظاہر سے بات ہے کہ نیشنل کانفرنس کے اُمیدواروں کو کامیاب بنانا ہوگاتبھی جاکر ہم جموںکشمیر کو اس دلدل سے نکال سکیںگے۔
اگر موجودہ صورتحال دیکھنے کے بعد بھی ہم پیچھے رہ گئے، پھر ہم کسی اور کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے ہیں، پھر قصور سیدھا سیدھا ہمارا ہوگا، کیونکہ یہ سارا کچھ دیکھنے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں بند رہیں اور ہم کمل لپیٹ کر گھروں میں بیٹھے رہے، پھر کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
عمر عبداللہ نے کہاکہ ”جو باقی ملک میں ہمارے مسلمان بھائیوں کےساتھ ہورہا کیا وہ ہمیں نہیں دِکھتا ہے؟کس طرح وہاں نوجوانوں کو بجلی کے کھمبوں کے ساتھ باندھ کر پیٹا جاتا ہے اور اس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔جب کہیں قتل ہوتا ہے تو قاتل کے مذہب کو دیکھ کر خبر بنائی جاتی ہے، خدانخواستہ اگر قاتل مسلمان نکلتا تو ہر مسلمان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کیا دوسرے مذہب کے لوگ قانون نہیں توڑتے ہیں؟کیا دوسرے مذہب کے لوگ ڈاکے نہیں ڈالتے ہی؟ کیا دوسرے مذہب کے لوگ قتل نہیں کرتے؟ لیکن عجیب سا ماحول بنا ہے، ہر چیز کو مذہب کے ساتھ تولا جاتا ہے اور ایک شخص کی غلطی کیلئے باضابطہ طور پر ایک پوری قوم کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں،اسی لئے ہم پریشان ہے۔
ہمیں لوگوں تک یہ باتیں پہنچانی ہیں اور صورتحال سے آگاہ کرنا ہے“۔ لوگوں سے کہنا ہے کہ آنے والے انتخابات بجلی، سڑک، پانی کا الیکشن مت سمجھئے بلکہ اس تشویشناک ماحول کو یہاں پہنچنے سے روکنے کی جدوجہد سمجھئے، آئندہ انتخابات میں اپنی پہنچان، شناخت ، انفرادیت، عزت اور وقار کیلئے حصہ لیجئے۔
انہوں نے کہاکہ کئی پارٹیاں ایسی ہی جو پہلے ہی سودا کرگئیں ہیں، جنہوں نے ہاتھ اوپر کردیئے، جو بی جے پی ساتھ لڑنے کیلئے تیا رنہیں ہیں، یہ ہم ہی ہیں جو ہر موقعے پر بی جے پی والوں کو ٹوکتے ہیں اور یہ بات جاننے کے باوجود بھی ہم نہیں رُکتے ہیں کہ وہ تمام سرکاری مشینری ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔جس دن نیشنل کانفرنس کا کوئی بیان نکلتاہے یا ہمارا کوئی پروگرام ہوتا ہے اگلے روز ہمارے خلاف کوئی نہ کوئی اقدام اُٹھایا جاتاہے۔