دہلی کی تنظیم مانوشی سدن نے بہشتی زیور سمیت دارالعلوم سے جاری مختلف فتووں پرکیا تھا اعتراض
دیوبند(دانیال خان)دہلی کی سماجی تنظیم مانوشی سدن کے ذریعہ نیشنل پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کمیشن میں کی گئی شکایت پر ضلع کے محکمہ تعلیم کی ٹیم نے ایس ڈی ایم دیوبند سنجیو کمار کی قیادت میں دارالعلوم دیوبند پہنچ کر خواتین کے شرعی مسائل کے حوالے سے لکھی گئی معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب بہشتی زیورکے سلسلے میں لگائے گئے الزامات کی جانچ کی۔حالانکہ دارالعلوم دیوبند نے ایک بار پھر واضح الفاظ میں کہاہے کہ مذکورہ کتاب کبھی بھی ادارے کے (نصاب) میں شامل نہیں کی گئی۔باوجود اس کے تعلیمی محکمہ کی ٹیم نے دارالعلوم کے ذمہداران سے بہشتی زیور سمیت ماضی میں دارالعلوم سے جاری فتوؤں کے متعلق معلومات حاصل کی۔
نیشنل پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کمیشن کی ہدایت پرایس ٹی ایم دیوبند سنجیو کمار کی قیادت میں دارالعلوم دیوبند پہنچے سی او رام کرن سنگھ، ڈی آئی او ایس یوگراج سنگھ، ڈی ایس او ڈاکٹر ونیتااور بی ای او ڈاکٹر سنجے ڈبرال پر مشتمل ٹیم نے ادارہ کے گیسٹ ہاؤس میں دارالعلوم کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی اور صدرمدرس مولاناسید ارشد مدنی سے ملاقات کی۔ ٹیم نے نیشنل پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کمیشن کے ذریعے موصول ہونے والے نوٹس پر معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تصنیف بہشتی زیورکے متعلق معلومات حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی دہلی کی سماجی تنظیم مانوشی سدن کے ذریعہ نیشنل پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کمیشن میں جمع کرائے گئے دارالعلوم سے جاری فتوؤں کے حوالے سے بھی معلومات لی۔
اس دوران دارالعلوم کے ذمہداران نے ٹیم کو بتایا کہ مذکورہ کتاب 100 سال قبل لکھی گئی تھی۔ جس میں خواتین سے متعلق شرعی مسائل ہیں اور یہ کتاب کبھی بھی ادارے کے نصاب میں شامل نہیں کی گئی۔ جانچ کے دوران ٹیم نے ادارے کے ذمہ داران سے بند کمرے میں بات چیت کی۔ ایس ڈی ایم سنجیو کمار نے بتایا کہ دارالعلوم دیوبند نے انہیں بتایا ہے کہ وہ سال 2022 میں بھی اسی طرح کی انکوائری کا جواب دے چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جلد ہی تحقیقاتی رپورٹ چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کو بھیج دی جائے گی۔واضح ہو کہ خواتین کے شرعی مسائل کے حوالے سے معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی ؒکی تقریباً 100 سال پہلے لکھی گئی کتاب بہشتی زیورسے لیے گئے بعض مسائل پر اعتراض کرتے ہوئے دہلی کی سماجی تنظیم مانوشی سدن نے نیشنل پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کمیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔ درج کرائی گئی شکایت میں مزکورہ کتاب کو لے کر دارالعلوم دیوبند پر سوالات اٹھاتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ ٹیم نے ذمہ داران دارالعلوم سے ملاقات کرنے کے بعداساتذہ سے دارالعلوم کی تاریخ قیام کا پس منظر اور یہاں کے تعلیمی نظام سے متعلق معلومات حاصل کیں اس موقع پر مولانا اسجد قاسمی نے ٹیم کی رہنمائی کی اور اکابرین ِدارالعلوم کے وضع کردہ اصول ہشت گانہ سے متعلق بتایااور کہا کہ دارالعلوم دیوبند انہی وضع کردہ اصولِ ہشتگانہ پر قائم ہے جس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ ادارہ کا نظام عوامی امداد سے چلا یا جائے گا اور سرکاری سطح سے کسی طرح کی امداد قبول نہیں کی جائے گی ٹیم کو بتایا گیا کہ ادارہ میں پانچ ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں جن کو دووقت کے کھانے کے علاوہ ماہانہ وظائف بھی دیئے جاتے ہیں،ٹیم میں شامل افسران دارالعلوم کی عمارات،لائبریری کی نئی عمارت اور خاص طور پر مسجد رشید کی پرشکوہ عمارت کو دیکھ کر کافی متاثرہوئے۔ اس موقع پرمعروف ادیب و قلم کارسید وجاہت شاہ،مولانا فیضان،دلشاد احمد،مولانا مقیم الدین،شاہ فیصل مسعودی،منظور حسن اور مولانا شفیق قاسمی وغیرہ موجود تھے۔