عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش منصفانہ نہیں تھی اور یہ ناپاک ارادوں کے ساتھ کی گئی تھی
نئی دہلی:گذشتہ کل راجستھان کی جئے پور ہائی کورٹ نے ایک انتہائی اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے جئے پور سلسلہ وار بم دھماکہ میں نچلی عدالت سے مجرم قرار دیئے گئے چار مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی جیسے سنگین الزامات سے نہ صرف بری کردیا بلکہ ڈائرکٹر جنرل آف پولس کو حکم دیا کہ وہ جھوٹے مقدمہ میں پھنسانے والے تحقیقاتی افسران (اے ٹی ایس )کے خلاف انکوائری کرے ۔ عدالت نے چیف سیکریٹری کو بھی حکم دیا کہ وہ وسیع تر عوامی مفاد میں اس اہم معاملے کو دیکھیں۔ دورکنی بینچ کے جسٹس پنکج بھنڈاری اور جسٹس سمیر جین نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ تفتیشی ایجنسی کو بھی قصور وار ٹہرایا جانا چاہئے جو اپنے کام سے مسلسل غافل رہے ، عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش منصفانہ نہیں تھی اور یہ ناپاک ارادوں کے ساتھ کی گئی تھی۔ضروری گواہوں کو عدالت میں گواہی کے لیئے پیش نہیں کیا گیا اور دوران تفتیش ثبوت و شواہد کے ساتھ ہیرا پھیری کی گئی اور من گھڑت کہانی بنانے کی کوشش کی گئی اور اس مقدمہ میں ایجنسی(اے ٹی ایس ) کا رویہ نہایت ظالمانہ تھا ۔
عدالت نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی ایجنسی کو تفتیش کرنے کے لیئے ضروری قانونی معلومات نہیں تھی اور وہ تفتیش کرنے کے طریقہ کار سے نابلد تھے۔تفتیشی عملہ کی تربیت نہیں تھی ، انہیں سائبر کرائم میں کس طرح تفتیش کی جاتی ہے اس پر دسترس نہیں تھا اور نہ ہی انہیں قانون میں کون سے ثبوت و شواہد قابل قبول ہیں اس کی معلومات تھی۔ تفتیشی ایجنسی کی ناکامی کی وجہ سے استغاثہ اپنا مقدمہ صحیح طریقے سے عدالت میں پیش نہیں کرسکا ۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ یہ پولس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ ثبوت و شواہد کی مکمل حفاظت کرے اور سنجیدگی سے معاملے کی تفتیش کرے اور حقیقی مجرموں کی شناخت کرے اور استغاثہ کی مدد کرے لیکن اس مقدمہ میں ایسا نہیں ہوسکا لہذ ا آج عدالت کو یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکاہٹ نہیں ہے کہ تفتیش نہایت ناقص تھی۔عدالت نے مزید کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ یہ ناقص تفتیش کا پہلا معاملہ نہیں ہے اوراگر ناقص تفتیش پر قابو نہیں پایا گیا تو استغاثہ کو ایسے ہی مزید ہزیمتیں اٹھانا پڑسکتی ہیں۔
جئے پور ہائی کورٹ میں مقدمہ کا سامنا کررہے پانچ میں سے تین ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ نے جئے پور ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کی جانب سے کیئے گئے تبصرہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ عدالت سے آج بھی انصاف ملتا ہے ، یہ فیصلہ اس کی زندہ مثال ہے، حالانکہ انصاف ملنے میں تاخیر ضرور ہوئی لیکن معزز جج صاحبا ن کے تبصروں سے ہمیں حوصلہ ملا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ناقص تفتیش کی وجہ سے بے قصور مسلم نوجوانوں کو 15؍ سالوں تک جیل کے اندر قید رکھا گیا اور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ان کے اوپر پھانسی کا پھندا لٹکتا رہا جو ملزمین او ر ان کے اہل خانہ کے لیئے کسی اذیت سے کم نہیں تھا۔ گلزار اعظمی نے مزید کہا کہ عدالت کایہ فیصلہ قانون وانصاف کی جیت ہے اور ان متعصب ایجنسیوں کے منھ پر ایک طمانچہ ہے ، جو غیر جانبدارانہ تفتیش کی جگہ بے گناہوں کو جیلوں میں ڈال کر نہ صرف اپنی پیٹھ تھپتھپاتی ہیں بلکہ دھڑلے سے یہ دعویٰ کردیتی ہے کہ ہم نے اصل مجرموں کو پکڑلیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے کہ جس میں ان ایجنسیوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے، اس سے قبل بھی اکشر دھام مندر حملہ مقدمہ میں تفتیشی ایجنسی کی سپریم کورٹ نے سخت سرزنش کی تھی اور خاطی پولس والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا ۔
گلزار اعظمی نے مزید کہاکہ معززجج صاحبا ن کے تبصروں کے تعلق سے جب صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کو بتایا گیا تو انہوں ہمیں حکم دیا کہ معاوضہ اور خاطی افسران کے خلاف کارروائی کرنے کے لیئے عدالت سے رجوع ہونے سے گریز نہیں کرنا چاہئے لہذا سینئر وکلاء سے صلاح و مشورہ کرکے معاوضہ اور خاطیوں افسران پر کارروائی کے لیئے لائحہ عمل تیار کیاجائے گا۔جئے پور ہائی کورٹ نے محمد سیف ، محمد سیف الرحمن ، محمد سرور اعظمی اور محمد سلمان کو نچلی عدالت سے ملی پھانسی کی سزا کو ختم کرتے ہوئے انہیں مقدمہ سے بری کردیااسی طرح ہائی کورٹ نے نچلی عدالت سے بری ہونے والے شہباز احمد کے خلاف داخل اپیل کو بھی خارج کردیا۔واضح رہے کہ13 مئی 2008کو راجستھان کے ثقافتی شہر جئے پور میں رو نما ہونے والے سلسلہ واربم دھماکہ معاملے میں گذشتہ کل جئے پور ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے چار ملزمین کو پھانسی کی سزا دیئے جانے والے فیصلہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے پھانسی کی سزا کی تصدیق کی عرضداشت کو خارج کرتے ہوئے ملزمین کی جانب سے داخل اپیل کو قبول کرلیا اور تمام ملزمین کو پھانسی کی سزا سے بری کردیا تھا۔جئے پور سیشن عدالت نے پانچ میں سے چار ملزمین کو قصوروار ٹہرایا تھا جبکہ ایک ملزم کو تمام الزامات سے بری کردیا تھا ، ملزمین پر الزام تھا کہ وہ ممنوعہ دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین کے رکن ہیں اور انہوں نے ہی سلسلہ وار بم دھماکے کئے تھے۔ ان بم دھماکوں میں 80 ؍لوگوں کی موت جبکہ 176 ؍لوگ زخمی ہوئے تھے۔اس مقدمہ کا سامنا کرنے والے ملزمین محمد سیف، محمد سرور اعظمی، سیف الرحمن اور محمد سلمان کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی جبکہ ملزم شہباز حسین کوناکافی ثبوت وشواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے بری کردیا گیا تھا۔ ایک جانب جہاں پھانسی کی سزا پانے والے چاروں ملزمین نے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل داخل کی تھی وہیں ریاستی حکومت نے بری ہونے والے شہباز احمد کے خلاف اپیل داخل کی تھی اور عمر قید کی سزاؤں کو پھانسی میں تبدیل کرنے کی اپیل داخل کی تھی جسے عدالت نے خارج کردیا۔