لکھنؤ:بزم نور نے حسب روایت سابق بہاریہ مشاعرے کا اہتمام مدینہ منزل ، غوث نگر میں کیا ۔ صدارت معروف شاعر رحمت لکھنوی نے کی ۔ مہمانان خصوصی کے طور پر رفعت شیدا صدیقی اور خلیل احسن نے شرکت کی ۔ بطور مہمان اعزازی نصیر احمد نصیر شریک مشاعرہ رہے ۔ ناظم پروگرام شاعر وادیب رضوان احمد فاروقی نے کہا یہ دور تہذیبوں کی پامالی کا ہے ۔ قدر وں کو خواہشات کے قدموں تلے روندنے کا ہے ۔ خو د نمائی کی انتہا یہ ہے کہ ہم خود محفل سجاتے ہیں اور اپنی ہی بزم میں اپنوں کے درمیان منصب صدارت پر براجمان ہو جاتے ہیں ۔ جلسہ تعزیت میں اعزاز و اکرام کو درست سمجھتے ہیں ۔ اخبار ی خبروں سے یہ مناظر مترشح ہیں ۔ منتخب کلام درج ذیل ہے ۔
ہم کو تو نرم گدوں پہ آتی نہیں ہے نیند
سوتے ہیں سر دیوں میں بچھا کر پیال لوگ
رحمت لکھنوی
رات کالی تھی سب جانتے ہیں ہو گئی وہ منو ر منور
رات کیسے گزاری گئی ہے یہ ذرا شب گزاروں سے پو چھو
امتیاز علی راز بھارتی
میں اس دنیا کی باتیں کر رہا ہوں جو منافق ہے
مزاج اس کا ابھی بدلا نہیں ہے حسب سابق ہے
رفعت شیدا صدیقی
شہادت کا مری حاصل یہی ہے
خدائے وقت کو سجدہ نہ کرنا
خلیل احسن
ہم نے ہر دور کے نمرود کا توڑا ہے غرور
ہم نہیں وقت کے جلاد سے ڈرنے والے
نصیر احمد نصیر
کسی نام ونسب اور گھر جلاتے ہو ئے
یہ لوگ کیسے ہیں ، خوش ہیں فریب کھاتے ہو ئے
حیدر علوی
شب کی تاریکیوں کا ہے کر دار
چاندکی روشنی بڑھانے میں
ساحل عارفی
اک دیا گر بجھ گیا تو کیا ہوا
پھر نئی شمع جلا لی جائے گی
نجمی لکھنوی
کتنے اخلاق سے وہ ملتا ہے
جب اسے کو ئی کام ہو تا ہے
عرفان لکھنوی
ہم اہل تماشہ نہیں جو چاہو کرو تم
روشن تو زمانے میں ہے کر دار کی خوبی
طارق سخا
عادل سا ، آفتاب سا ، لہجہ مجھے بھی دے
ان کو دیا بہت ہے تو تھوڑ ا مجھے بھی دے
کمال ادیب
عہد وفا کی لاج بچائے ہو ئے ہیں ہم
دور ستم کو سہنا مری بزدلی نہیں
محشر گونڈوی
بادلوں کے رتھ پہ آیا تھارکا موسم حسیں
اس حسیں موسم میں ہم کو در بدر رکھا گیا
ثابت لکھنوی
مذکورہ شعراء کے علاوہ ماہر لکھنوی ، راجیش راج ، محمد قسیم قریشی ، سیف الاسلام ، وغیرہ نے مشاعرے کی رونق بڑھائی ۔ حاجی امتیاز علی نے ضیافت کے ساتھ کلمات تشکر ادا کئے ۔