پٹنہ ( یواین آئی ) دستوری طور پر رجسٹرڈ جماعت پی ایف آئی کے خلاف ملک مخالف سرگرمیوں کے الزام میں حکومت کی کارروائیوں پربہار کی کئی اہم اور بڑی ملی تنظیموں ؛ امارت شرعیہ،جماعت اسلامی ہند(بہار) آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بہار اورمجلس علماءو خطباءامامیہ (شیعہ) بہارکے سربراہان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی کارروائی برادریوں کے درمیان نفرت کو بڑھانے والی اور ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔ جس تنظیم کا قیام آئین اور قانون کے دائرے میں ہوا ہو، جس کا دستور العمل اور بائی لاز آئین ہند کے مطابق ہو اور اپنی قوم کے لیے دستوری حقوق کا مطالبہ کرنا جس کا نصب العین ہو جس کے سیاسی ونگ(ایس ڈی پی آئی) کو الیکشن کمیشن نے عوامی الیکشن لڑنے کی منظوری دی ہو، ایسی جماعت پر پابندی لگانا غیر جمہوری طرز عمل ہے۔ماضی میں تفتیشی ایجنسیوں کی کارروائیوں نے ان کے طریقہ کار پر سے اعتماد کو مکمل طور پر مجروح کر دیا ہے۔ اس لیے اس طرح کی تمام گرفتاریوں اور پابندی پر سوالیہ نشان لگنا لازمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کرنا اور اس کی غلطیوں پر تنقید کرنا ملک سے دوستی کی علامت اور ملک کی سلامتی کی ضامن ہے۔کیا حکومت کے پاس پی ایف آئی کے سلسلہ میں ملک مخالف سرگرمیوں اور فارن فنڈنگ کے تعلق سے ٹھوس شواہد اور ثبوت ہیں؟ یا یہ ساری کارروائیاں صرف مفروضے کی بنیا د پر ہیں؟کیا ان کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے جو گجرات اور ملک کے مختلف حصوں سے بے قصور گرفتار ہوئے سیکڑوں بے گناہ مسلم نوجوانوں کا ہوا؟سیکڑوں ایسے بے قصور مسلم نوجوان ہیں جن کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور15- 20 سال کے بعد باعزت بری کیا گیا۔کئی لوگ تو ایسے ہیں جن کو 25 برسوں سے زیادہ عرصے تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے، غیر انسانی و ناقابل برداشت ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار بنانے کے بعد آخر کار انہیں بے قصور رہا کر دیا گیا۔گلبرگہ کرناٹک کے نوجوان ناصرالدین احمد کوجنوری 1994 میں بم بلاسٹ اور دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 2016 میں 23 برس کے بعد بے گناہ بری کر دیا گیا۔2019 میں ناسک مہاراشٹر کی ایک عدالت نے ٹاڈا کے تحت دہشت گردی کے الزام میں گرفتار 11 مسلمانوں کو 25 سال جیل میں رکھنے کے بعد باعزت بری کیا۔2021 میں گجرات میں 127 مسلمانوں کو 20 برس جیل میں رکھنے کے بعد بے قصور رہا کیا گیا۔2021 میں ہی گجرات میں گرفتار کشمیری نوجوان بشیر احمد بابا کو 11 سال سے زیادہ بے گناہ جیل میں رکھنے کے بعدباعزت رہا کیا گیا،۔اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔
یہ تعصب تفتیشی ایجنسیوں میں برسوں سے جاری ہے، بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، انہیں قید وبند کے عذاب میں مبتلا کر کے ان کی خوشگوار زندگی ان سے چھین لی جاتی ہے، ان کی ساری جوانی، عزت اور کیرئرکو برباد کر کے آخر کا ر باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔اور نہ ان کو گرفتار کرنے والی پولیس، این آئی اے اور اے ٹی ایس پر کوئی کارروائی ہوتی ہے، نہ سزا سنانے والے جج کے خلاف کوئی ایکشن ہوتا ہے، نہ اس بے قصور کو کوئی معاوضہ دیا جاتا ہے ان برسوں میں ان معصوم نوجوانوں کے بیوی بچے جس اذیت سے گزرے، ان کی زندگیاں تباہ و برباد ہو گئیں،اس کا معاوضہ کون ادا کرے گا؟ایسے کب تک چلتا رہے گا؟ تفتیشی ایجنسیوں کا آئین مخالف رویہ ملک کے امن اور سالمیت کے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
پی ایف آئی کے کارکنان کے خلاف بھی حکومت یہی کر رہی ہے اورکوئی بعید نہیں کہ دس برس بیس برس بعد یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے گا کہ ان کے خلاف جرم ثابت نہیں ہو پایا۔ اور نہ ان پولیس والوں پر کوئی کارروائی ہوگی اور نہ ان افسران پر جنہوں نے گرفتاری کا وارنٹ جا ری کیا۔ پی ایف آئی پر بین لگاتے ہوئے یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ خفیہ ایجنڈا کے تحت سماج کے ایک خاص طبقہ کو کٹر بنا کر جمہوریت کے تصور کو کمزور کرنے کی سمت کام کر رہے ہیں اورآئینی حقوق اور ملک کے آئین کے تئیں سخت توہین کرتے ہیں۔اس میں پی ایف آئی کے کارکنان کو سیمی اور جماعت المجاہدین سے رابطہ رکھنے کا بھی الزام لگا یا گیا ہے۔اسی طرح آئی ایس آئی ایس کے ساتھ تعلقات کا بھی سنگین الزام لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈھیروں الزامات عائد کیے گئے ہیں۔تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کا یہ پرانا رویہ رہا ہے کہ جب بھی کسی معاملہ میں کسی مسلمان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو دہشت گردی، ملک مخالف سرگرمیوں اور ملک سے بغاوت کے بے شمار الزامات اس پر عائد کر دیے جاتے ہیں ، اس لیے کہ ان کو معلوم ہے کہ الزامات ثابت ہوںیا نہ ہوں ان ایجنسیوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، نہ ان لوگوں کے بے گناہ ثابت ہونے پر ان کے خلاف کوئی کارروائی ہونے والی ہے۔پی ایف آئی پر لگنے والے ان الزامات کا بھی کہیں یہی حشر نہ ہو جائے۔ آئین کے خلاف توہین، جمہوریت کو کمزور کرنے اور سماج کو کٹر بنانے کا جو الزام پی ایف آئی پر لگایا گیا یہ کام تو برسوں سے آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو یووا واہنی، ہندو سینا، شیو سینا اور اس جیسی سیکڑوں ا س کی ہم نوا تنظیمیں کرتی رہی ہیں اور ملک مخالف سرگرمیوں کے کافی ثبوت ان کے کارکنان اور لیڈران کے خلاف موجود ہیں، لیکن ا س کے باوجود وہ تنظیمیں ملک کی وفادار ہیں اوران کے خلاف کسی کارروائی کا تصور بھی حکومت یا اس کی تفتیشی ایجنسیوں کو نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح حکومت نے سیمی کو بھی دہشت گرد جماعت قرار دے کر ا س پر پابندی عائد کی ، سیکڑوں سیمی کے رضاکاروں کو گرفتار کیا، لیکن آج تک سیمی دہشت گرد تنظیم ثابت نہیں ہو پائی اور کیس سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہے۔گجرات کے احمد آباد میں 26جولائی 2008 کو ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے الزام میں 77 مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا، ان پر بم دھماکے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہنے کا الزام تھا، مگر 13 برس اذیتوں کا شکار رکھنے کے بعد ان میں سے 28 افراد کوفروری 2022 میں باعزت رہا کر دیا گیا۔ باقی لوگ بھی اسی طرح رہا ہو جائیں گے۔
اسی طرح بمبئی بم بلاسٹ ، مکہ مسجد بم بلاسٹ، سمجھوتا اکسپریس پر حملہ اور دیگر کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کے الزام میں گرفتار ہوئے سیکڑوں مسلم نوجوان اب تک 10 سے 20 برس تک ناحق جیلوں میں گزار کر بے گناہ بری ہو چکے ہیں۔لیکن بے گناہی کے باوجود زندگی کے بہت سے قیمتی سال جیل میں برباد کر دیے جانے کے لیے قصور وار کون ہیں اور کیا ان قصور وار عناصر کو کوئی سزا بھی ملے گی؟ کیا باعزت بری کیے جانے والے بے گناہ شہریوں کو کبھی کوئی معاوضہ بھی ملے گا؟ اسی طرح بھارت میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوان جیلوں میں بند ہیں، ان میں سے بہت سے کئی کئی برسوں بعد بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہو جاتے ہیں، لیکن ایسے شہریوں کو جھوٹے الزامات میں پھنسانے والے پولیس اہلکاروں یا دیگر افراد کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
اس طرح کی کارروائیوں سے عوام کا اعتماد نہ صرف حکومت بلکہ پولیس، تفتیشی ایجنسیوں حتی کہ عدلیہ پر کمزورہوتا جا رہا ہے۔قانون یہ کہتا ہے کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا تب تک کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ اس کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا سکتا ہے۔ پی ایف آئی پر حکومت کا لگایا گیا ابھی تک کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے، لیکن پورے ملک میں ان کو ایک دہشت گرد اور ملک مخالف تنظیم کے طور پر پیش کیا جا رہاہے جو کہ حقوق انسانی اور آئین ہند دونوں کے خلاف ہے۔میڈیا کا رول بھی اس معاملہ میں بہت شرمناک ہے اور چینلوں پر بھی اس طرح خبریں نشر کی جا رہی ہیں گویا کہ دہشت گردوں کی گرفتاریا ں ہو رہی ہیں۔ یہ طرز عمل کسی سیکولر اور آئین پر چلنے والے ملک کے لیے صحت مند علامت نہیں ہے۔ ایسی کارروائیوں پر فوراً روک لگائی جانی چاہئے۔ پی ایف آئی مسلمانوں اور پسماندہ برادریوں کو آئینی طور پر بااختیار بنانے میں مصروف ہے۔ اگر این آئی اے کے پاس تنظیم پر پابندی لگانے کے لیے دہشت گردی کے حقیقی ثبوت ہیں تو اسے فوری طور پر عدالت میں پیش کرنا چاہیے بصورت دیگر پابندی ہٹا دی جائے۔