جنیوا/نیو یارک: عالمی حفاظتی ٹیکہ کاری مہم سے گزشتہ سال یعنی 2021 کے مقابلے 2022 میں 40 لاکھ مزید بچوں تک پہنچی ۔ چونکہ COVID-19 کی وجہ سے تاریخ میں پہلی مرتبہ حفاظتی ٹیکہ کاری کی شرح بری طرح سے متاثر ہوئی تھی تاہم جیسے ہی دنیا کی حکومتوں نے اس طرف خصوصی توجہ دینا شروع کی یہ شرح بحالی کی طرف گامزن ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف کے آج جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں 20.5 ملین بچے معمول کی حفاظتی ٹیکوں کی خدمات کے ذریعے فراہم کی جانے والی ایک یا زیادہ ویکسین سے محروم رہ گئے ہیں جبکہ 2021 میں ایسے بچوں کی یہ تعداد 24.4 ملین تھی ۔ اس بہتری کے باوجود یہ تعداد ان 18.4 ملین بچوں سے زیادہ ہے جو کوویڈ وباسے پیدا مسائل سے قبل 2019 میں ٹیکے سے محروم رہ گئے تھے ۔ رپورٹ اس امر کو اجاگر کرتی ہے کہ موجودہ بحالی کے کاموں او ر صحت کے نظاموں کو مضبوط بنانے کی کوششوں کو مزید جلا دینے کی ضرورت ہے ۔
خناق diphtheria ، تشنجtetanus، اور پرٹیوسس (DTP) کے تدارکی ویکسین کو امیونائزیشن کوریج کا عالمی مارکر تصور کیا جاتا ہے۔ سال 2022 میں 20.5 ملین بچے جو اپنی ڈی ٹی پی ویکسین کی ایک یا ایک سے زائد خوراک سے محروم رہے جبکہ 14.3 ملین بچوں کو ایک خوراک بھی نہیں ملی اور یہ نام نہاد زیرو ڈوز والے بچے ہیں۔ بہرحال یہ اعداد و شمار 2021 میں 18.1 ملین صفر خوراک والے بچوں کے بارے بہتر صورت حال کی غمازی کرتا ہے لیکن یہ 2019 میں 12.9 ملین بچوں سے زیادہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل کے ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانوم گھبریئس نے کہا کہ ’’ یہ اعداد و شمار حوصلہ افزا ہیں اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے حفاظتی ٹیکوں کی کوریج میں دو سال کی مسلسل گراوٹ کے بعد زندگی بچانے والی حفاظتی ٹیکوں کی خدمات کو بحال کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔‘‘ ان کے بقول مگریہ اعداد وشمار عالمی اور علاقائی اوسط شرح بحالی کی صور تحال کے بارے میں مکمل تصویر پیش نہیں کرتے ہیں نیز شدید و مستقل نوعیت کی تفاوت کی پردہ داری کرتے ۔ اس معاملہ میںجب ممالک اور علاقے پیچھے رہ جاتے ہیں تو اس کی قیمت بچے ادا کرتے ہیں۔‘‘
عالمی حفاظتی ٹیکوں کی خدمات بحالی کی مہم کے ابتدائی مراحل یکساں نہیں ہیں۔ بہتر صورت حال چند ممالک تک محدود ہے۔ ہندوستان اور انڈونیشیا جیسے اچھے وسائل والے ممالک جہاں بچوں کی ایک بڑی آبادی ہے اور زیادہ تر کم آمدنی والے ممالک میں یہ پیش رفت سست یا دائمی زوال کا شکار ہے خاص طور پر خسرہ کی ویکسین لگانے کے معاملہ میں ۔
وبا ء کے دوران میں جن73 ممالک میں ٹیکہ کاری مہم بری طرح سے متاثر ہوئی تھی ان میں سے 15 ملکوں نے وبا ء سے پہلے کی سطح کو بحال کرلیا ہے جبکہ 24 ممالک بحالی کی راہ پر گامزن ہیں لیکن بقیہ 34 ممالک جمود یا مسلسل زوال کا شکار ہیں۔ یہ تشویش انگیز رجحانات صحت کے متعلق دیگر پیمانوںمیں نظر آنے والے نمونوںکو پیش کرتے ہیں۔ دنیا کی حکومتوںکو یہ امر یقینی بنانا چاہیے کہ وہ وباء سے پہلے کی سطح کو حاصل کرنے کی کوششوں کو تیز کر رہے ہیں تاکہ ہر بچے تک اس کے لیئے ضروری ویکسین پہنچائی جا سکے کیونکہ معمول کی حفاظتی ٹیکوں فراہم کرنا صحت کی دیکھ بھال کا ایک بنیادی عنصر ہے ۔ اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صحت کے دیگر شعبوں میں بھی اصلاح کی پیش رفت کی جانی چاہیے ۔خسرہ ،جو سب سے زیادہ متعدی بیماریوں میں سے ایک ہے ،کے تدارکی ٹیکہ کاری مہم دیگر ویکسین پروگراموں کی طرح پوری طرح سے بحال نہیں ہوئی ہے۔ جس کے باعث مزید 35.2 ملین بچوں کو خسرہ ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ خسرہ کی پہلی خوراک کی کوریج 2021 میں 81 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 83 فیصد ہوگئی لیکن 2019 میں حاصل کی گئی 86 فیصد شرح سے کم رہی۔ اس کے نتیجے میں گزشتہ سال 21.9 ملین بچے اپنی زندگی کے پہلے سال میں خسرہ کی معمول کی ویکسین لینے سے محروم رہ گئے۔ جو 2019 کے مقابلے میں 2.7 ملین زیادہ ہے۔ اسی طرح مزید 13.3 ملین بچوں کو ان کی دوسری خوراک نہیں ملی ہے جس کی وجہ سے ویکسین سے محروم آبادیوں میں خسرہ کی وباء پھیلنے کا خدشہ ہے ۔
یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا کہ ’’مثبت رجحان کے پس پشت ایک سنگین انتباہ چھپا ہے۔‘‘ ’’ جب تک زیادہ سے زیادہ ممالک معمول کے حفاظتی ٹیکوں کی کوریج کی خلیج کو دور نہیں کرتے ہر جگہ بچوں کو ان بیماریوں سے متاثر ہونے اور موت کا خطرہ لاحق رہے گا جسے ہم روک سکتے ہیں۔ خسرہ جیسے وائرس سرحدوں کو نہیں پہچانتے۔ ایسے بچوں کا پتہ لگانے کی مہم کو فوری طور پر مضبوط کیا جانا چاہیے جو اپنی اس ویکسین سے محروم رہ گئے ہیں اور یہ کام وباء سے پہلے کی سطح سے حفاظتی ٹیکوں کی خدمات کو بحال کرکے مزید بہتر کیا جاسکتا ہے ۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ وباء سے قبل پہلے کے عرصے میں مستحکم، پائیدار کوریج والے ممالک حفاظتی ٹیکوں کی خدمات کو بہتر طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مثال کے طور پرجنوبی ایشیا جہاں وباء سے پہلے کی دہائی میں کوریج میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے ان خطوں کے مقابلے میں زیادہ تیز اور مضبوط بحالی کا مظاہرہ کیا ہے جو طویل عرصے سے زوال کا شکار تھے جیسے لاطینی امریکہ اور جزائر غرب الہند ۔ افریقی خطہ جو بحالی کی مہم میں پیچھے ہے اسے مزید مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ممالک کو کوریج کی شرح کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سال معمول کے مدافعتی ٹیکوں کی خدمات میں اضافہ کرنا چاہیے۔
57 کم آمدنی والے ممالک میں ڈی ٹی پی 3 ویکسین کی کوریج گاوی ویکسین الائنس کے تعاون سے 2022 میں بڑھ کر 81 فیصد تک پہنچ گئی جو کہ 2021 کے 78 فیصد شرح سے کافی زیادہ ہے۔ صفر خوراک والے بچوں کی تعداد کے ساتھ جن کو بنیادی ویکسین نہیں ملی ان کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ان ممالک میں یہ تعداد 2 ملین کم ہوئی ہے۔ تاہم گاوی پر عمل درآمد کرنے والے ممالک میں ڈی ٹی پی کوریج کی شرح میں اضافہ کم اوسط آمدنی والے ممالک تک محدود تھا۔ کم آمدنی والے ممالک کی شرح میں ابھی تک اضافہ نہیں ہوا ہے۔ جو اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ صحت کے سب سے زیادہ کمزور نظاموں کی تعمیر نو کے لیئے میں مدد دینے کی ضرورت ہے۔
گاوی کے سی ای او ڈاکٹر سیٹھ برکلے نے کہا کہ ’یہ انتہائی غیر معمولی کامیابی ہے کیونکہ وبائی مرض کی وجہ سے معمول کی ٹیکہ کاری مہم بڑے پیمانے متاثر ہوئی تھی اس کے بعد سے گاوی کے امداد یافتہ ممالک میں یہ مہم اتنی مضبوطی بحال ہوئی ہے خاص طور پر صفر خوراک والے بچوں کی تعداد کو کم کرنے کے معاملے میں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اہم رپورٹ سے واضح ہے کہ ہمیں ہر ملک کومدد فراہم کرنے کے لیئے راہیں تلاش کرنی ہوگی تاکہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کر سکیں بصورت دیگر دورجحانات ابھرنے کا خطرہ ہے یعنی بڑے اور کم اوسط آمدنی والے ممالک باقی ممالک سے آگے نکل جا ئیں گے‘ ۔
پہلی مرتبہ HPV ویکسین کی کوریج کی شرح نے وبائی مرض سے پہلے کی شرحوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے HPV ویکسین پروگرام جو وبائی مرض سے پہلے شروع ہوا تھا 2019 کے مقابلے میں 2022 میں لڑکیوں کی اتنی ہی تعداد تک پہنچ گیا ہے تاہم 2019 میں کوریج کی شرح 90% ہدف سے کافی کم تھی اور یہ 2022 میں ہدف کے مطابق رہا۔ HPV پروگراموں کی اوسط کوریج شرح زیادہ آمدنی والے ممالک میں 67% اور کم آمدنی والے ممالک میں 55% تک پہنچ گئی ہے۔ گاوی الائنس کی قیادت میں نئے شروع کیے گئے HPV احیاء کا مقصد موجودہ پروگرام کی ترسیل کو مضبوط بنانا اور مزید علاقوں میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
اس مہم میں شامل بہت سے فریق تمام خطوں اور تمام ویکسین پلیٹ فارموںمیں بحالی کے کام کو تیز تر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سے قبل 2023 میں، ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف نے گاوی، دی بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور دیگر IA2030 شراکت داروں کے ساتھ مل کر ‘دی بگ کیچ اپ’ کا آغاز کیا جو کہ ایک عالمی ترسیل اور تبلیغ کی ایک مہم ہے جس میں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان بچوں کا پتہ لگائیں جو وباء کے دوران میں ویکسین لینے سے محروم رہ گئے تھے نیز حفاظتی ٹیکوں کی خدمات کو وباء سے قبل کی سطح پر بحال کریں اور اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے:
- وہ اپنے اس عزم کو دو چند کریں کہ حفاظتی ٹیکوں کے لیے مالی اعانت میں اضافہ اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر میسر وسائل بشمول کوویڈ -19 فنڈز کو بروئے کار لاکر ٹیکہ کاری کی متاثر ہوئی خدمات کو فوری طور پر بحال کریں گے اور محروم بچوں کا پتہ لگانے کی کوششوں کو تیز کریں گے ۔
• ایسی نئی پالیسیاں تیار کریں جو ٹیکہ کاری خدمات کو ان بچوں تک پہنچنے کے قابل بنا ئے جو وبائی مرض سے ٹھیک پہلے یا اس کے دوران پیدا ہوئے تھے اور جو اس عمر سے گزر رہے ہیں جب انہیں معمول کے حفاظتی ٹیکوں کی خدمات کے ذریعے ٹیکہ لگایا جانا ضروری ہے - حفاظتی ٹیکوں اور بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو مضبوط بنایا جائے جن میں کمیونٹی ہیلتھ سسٹم بھی شامل ہے اور ویکسین مہم میں طویل مدتی جمود کو دور کرنے اور سب سے زیادہ پسماندہ طبقات کے بچوں تک پہنچنے کے لیے حفاظتی ٹیکہ کاری میں حائل مشکلات کو دور کرنا۔
- آبادیوں اور طبی عملے کے ساتھ باہمی اشتراک کے ذریعے ویکسین کی افادیت کے بارے میں اعتماد اور قبولیت پیدا کرنا اور اس سلسلہ کو برقرار رکھنا۔