نئی دہلی:اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتما م ادبی و ثقافتی سر گرمیاں لگاتار دہلی کے مختلف علاقوں میں منعقد ہوتی رہتی ہیں ۔ اکادمی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ ہر سال ادیبوں کو ایوارڈ اور مصنفین کی کتابوں کو انعامات سے بھی نوازتی ہے ۔اردو اکادمی کا یہ بہت ہی اہم پروگرام ہوتا ہے جسے بہت ہی اہتمام سے دہلی سکریٹریٹ کے اندر منعقد کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ایوارڈ کا اور اس سال انعامات کا جلسہ اس اہم مقام پر منعقد ہوا ۔ اس سال گزشتہ تین بر سوں کے منتخب 44 کتابوں پر مصنفین کو اول دوم اور سوم انعامات کے لیے منتخب کیا گیا۔ جنھوں نے جلسہ میں شریک ہوکر اپنا انعام ، اکادمی کا نشان اور سند حاصل کیا ۔
پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر جناب سوربھ بھاردواج وزیر برائے فن ، ثقافت والسنہ نے شرکت کی اور مصنفین و حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے درمیان آپ جیسے عمدہ مصنفین ہیں جن کی کتابوں کو آج کے الکٹرانک دور میں بھی بڑے شوق سے لوگ پڑھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ جیسے مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے اردو اکادمی کتابوں پر انعامات دیتی ہے ۔
مہمان اعزازی وزیر برائے خوراک و رسد جناب عمران حسین نے مصنفین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اچھی کتابیں لکھی جارہی ہیں اور ادبی حلقوں میں وہ بہت ہی زیادہ مقبول بھی ہورہی ہیں ۔اکادمی ثقافتی و ادبی پروگر ام جس تندہی سے کرتی ہے اس کے لیے بھی اکادمی مبارکباد کی مستحق ہے ۔
صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے اردو اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ کتاب کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے اور بغیر کتاب پڑھے کام نہیں چلتا ہے۔ ایک کتاب پڑھنے کے بعد آدمی کی شخصیت وہ نہیں رہتی ہے جو کتاب پڑھنے سے پہلے ہوتی ہے ۔آپ تمام لوگ جو مختلف سرگرمیوں سے وابستہ ہیں لیکن قلم کی سرگرمی ہی ہے جو آپ کو مخصوص بناتی ہے ۔
استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے سکر یٹری اردو اکادمی محمد احسن عابد نے کہا کہ اکادمی جیسے ادارے اسی لیے قائم ہوئے ہیں کہ جو بھی اردو میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، آ پ تمام مصنفین جن کی کتابیں انعام کے لیے منتخب ہوئی ہیں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
جلسہ تقسیم انعامات کتب میں جن مصنفین انعامات حاصل کیے ان میں پروفیسر توقیر احمد خاں’’ جدید اردو شاعری‘‘، جناب معصوم مرادآبادی’’ اردو صحافت :آغاز سے 1857 تک کا ایک مختصر جائزہ‘‘،جناب اسد رضا’’ طنزانچے‘‘ ، ڈاکٹر انا دہلوی ’’آبروئے غزل‘‘،ڈاکٹر ذاکر فیضی’’ نیا حمام ‘‘، ڈاکٹرراشدہ رحمن ’’ابتدائی دور کی ناول نگار خواتین‘‘، پروفیسر مینوبخشی’’ ابرِ کرم‘‘ ،ڈاکٹر عبدالباری قاسمی ’’تفہیم و تعبیر ‘‘۔ڈاکٹر محمد نعمان خاں’’ فلسفۂ تعلیم ‘‘،جناب سہیل انجم’’ نقشِ برسنگ ‘‘،پروفیسر شہزاد انجم’’ اردو کے غیرمسلم شعرا اور ادبا‘‘ ،جناب انتظار نعیم’’ اُجالوں میں سفر‘‘،جناب معین شاداب’’ افکار و اظہار‘‘، ڈاکٹر تسنیم بانو’’ تحریکِ نسواں اور خواتین افسانہ نگار (جلد اول)‘‘،ڈاکٹر زاہد احسن’’ اردو شاعری میں حب الوطنی ‘‘، ڈاکٹر پرویز شہریار’’راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری‘‘، ڈاکٹر سید فیضان حسن’’ ادب و ثقافت ‘‘ ڈاکٹر ابراہیم افسر’’ رشید حسن خاں کی ادبی جہات ‘‘، ڈاکٹر نوشاد منظر’’غالب ہندی ادیبوں کے درمیان‘‘، ڈاکٹر شمع افروز زیدی ’’جنھیں میں نے دیکھا جنھیں میں نے جانا‘‘، محترمہ غزالہ قمر اعجاز’’ مجھے بھی‘‘،جناب اختر اعظمی ’’دیدہ ور‘‘۔پروفیسر شریف حسین قاسمی ’’حاصلِ تحقیق ‘‘،ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم ’’ ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ‘‘، پروفیسر کوثر مظہری’’ جمیل مظہری فردنامہ ‘‘، جناب خورشید اکرم’’ رات کی بات‘‘، ڈاکٹر ریاض احمد ’’ تعلیم و تدریس کے عصری مباحث‘‘،ڈاکٹر امیر حمزہ’’ رباعی تحقیق ‘‘، جناب شاہد انور’’ اشارت‘‘،جناب محمد حیدر علی’’ جدید اردو افسانے کا فکری و فنّی منظرنامہ‘‘،ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا’’ایک ایسا بھی دور ‘‘،جناب طالب رامپوری’’ نئی امید کے پھول‘‘ ،جناب احمد علوی ’’عاشقِ دلباختہ ‘‘،محترمہ سیدہ نفیس بانو شمع ’’وقت مجھے لکھ رہا ہے‘‘، ڈاکٹر سرفراز جاوید’’دیوانِ آبرو‘‘ ، ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی’’ اردو صحافت (حقائق ، روایت اور امکانات)‘‘،جناب اشرف علی بستوی’’ کارپوریٹ میڈیا: ایک جائزہ‘‘مفتی عطاء الرحمن قاسمی’’نقوشِ خاطر‘‘ ،محترمہ شبنم آرا ’’بدلتے معاشرتی اقدار اور عورت‘‘، ڈاکٹر عرفان رضا’’ دہلی کے کتب خانوں میں اردو مخطوطات کا اشاریہ‘‘ کے اسمائے گرامی شامل ہیں
پروگرام میں گورننگ کونسل کے ممبران علیم الدین اسعدی ، ڈاکٹر شبانہ نذیر ، ڈاکٹر محمد عارف، فیروز صدیقی ، مزمل خاں ، مولانا اسامہ کاندھلوی کے علاوہ پروفیسر خالد محمود ، ڈاکٹر ایم آر قاسمی ، ڈاکٹر خالد مبشر ، ڈاکٹر سلمان فیصل ، ڈاکٹر زاہد ندیم احسن سمیت وزارت کے افسران و کارکان ، معززین شہر ، شعرا و ادبا اور مصنفین کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔