دی ونگس فائونڈیشن کے زیر اہتمام ’’ایک شام خالد محمود کے نام‘‘ کا انعقاد
نئی دہلی:پروفیسر خالد محمود کی شخصیت ہمہ جہت ہے اور ان کی ہر جہت نہایت روشن ہے۔ وہ بیک وقت خاکہ نگار، انشائیہ نگار، شاعر، نقاد اور محقق سبھی کچھ ہیں۔ لیکن بحیثیت معلم اور بحیثیت انسان بھی وہ غیر معمولی خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان کی کتاب ’’اردو سفر ناموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ آج بھی ایک ایسا مستند حوالہ ہے کہ جس کے بغیر اس موضوع پر کوئی تحقیقی اور تنقیدی کام ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار مشہور تعلیمی تنظیم دی ونگس فائونڈیشن کے زیر اہتمام ڈائنامک انگلش کوچنگ سینٹر، بٹلہ ہائوس، نئی دہلی میں ’’ایک شام خالد محمود کے نام‘‘ منعقد کیے گئے اعزازی جلسے کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر کوثر مظہری نے کیا۔ اس موقعے پر مشہورادیب اور صحافی شمیم طارق نے کہا کہ خالد محمود ہماری ادبی و تہذیبی زندگی میں شمع محفل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مہمان خصوصی ممتاز نباتاتی سائنس داں اور سابق پرووائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر تسنیم فاطمہ نے پروفیسر خالد محمود کی خانگی زندگی پر ایک دلچسپ خاکہ پیش کیا۔ جلسے کے کنوینر ڈاکٹر عادل حیات نے صاحب اعزاز پروفیسر خالد محمود کا مفصل تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اردو کی ادبی بستیوں میں گنتی کے چند لوگ ہیں جن کی شخصی اور ادبی زندگی مشعل راہ بن جائے، پروفیسر خالد محمود کا شمار انھیں نایاب شخصیات میں ہوتا ہے۔ محفل کے میزبان دی ونگس فائونڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوار الحق نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خالد محمود نفاست طبع، نستعلیقیت، اعلیٰ حس ظرافت، زبان و تہذیب سے والہانہ وابستگی اور تعلیم و تربیت کے حسین سنگم کا نام ہے۔
نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے۔ آغاز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم عبدالرحمن کی تلاوت سے ہوا۔ اس خوبصورت اور یادگار محفل میں شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا۔ جس میں صاحب اعزاز پروفیسر خالد محمود کے علاوہ صدر محفل پروفیسر کوثر مظہری، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، ڈاکٹر احمد تنویر، ڈاکٹر وسیم راشد، ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر خان محمد رضوان، ڈاکٹر سلمان فیصل، ڈاکٹر امتیاز رومی اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی نے اپنے دل کش کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
مختصر یہ کہ جنت سے نکل کر خالد
خوار سے ہوگئے خونخوار کہوں یا نہ کہوں
خالد محمود
اک صدا بھولی ہوئی کانوں سے ٹکرائی تھی کل
پہلے تو آنسو گرے آواز پھر بھاری ہوئی
کوثر مظہری
لوگ کیوں ڈھونڈھ رہے ہیں مجھے پتھر لے کر
میں تو آیا نہیں کردار پیمبر لے کر
شمیم طارق
وہی تو کالبد گل میں ڈھالتا ہے شکل
وگرنہ طرفگیٔ کوزہ گر میں خاک نہیں
سہیل احمد فاروقی
میرے خوں کا ذائقہ جب دوستوں نے چکھ لیا
جسم کے پھر ایک اک قطرے کی فرمائش ہوئی
احمد تنویر
جو اہل زر کے در پہ جھکائے جبیں ملے
دم توڑتے ضمیر بھی ان کے وہیں ملے
وسیم راشد
رعونت حد سے بڑھ جائے تو اک کمزور مچھر سے
سزا نمرود کو دیتا ہے رب معلوم ہے مجھ کو
واحد نظیر
ناداں تو پہلے ہی سے نشے میں تھے چور چور
خود آگہی کے زعم میں دانا نشے میں ہے
عادل حیات
وضع داری کے، دیانت کے، خودداری کے
سارے لفظوں کے معانی ہیں خالد محمود
خالد مبشر
ہم تو اپنے قد کے برابر بھی نہ ہوئے
لوگ نہ جانے کیسے خدا ہوجاتے ہیں
خان محمد رضوان
قدم قدم پہ مسائل سفر میں وحشت ہے
بدن سے روح جو نکلے تو اپنے گھر جائوں
امتیاز رومی
آئو بیٹھو ہماری محفل میں
کرب کی داستاں سنانی ہے
سلمان فیصل
سوچا تو تھا کہ حال دل ان سے بیاں کروں
کچھ شرم تھی ادھر بھی اُدھر بھی حجاب تھا
ساجد ذکی فہمی