نئی دہلی/مونگیر(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو)اردو شاعری کی معتبر آوازسمجھے جانے والے پروفیسر راشد طراز کا آج انتقال ہوگیا۔ان کا تعلق مونگیر کے دلاور پور سے تھا۔ موصوف شہر کے آر ڈی اینڈ ڈی جے کالج سے برسوں وابستہ رہے اور نئی نسل کو اُردوکی تعلیم دینے کے ساتھ ہی ساتھ اُردو زبان و ادب کے اپنے دیرینہ تعلق کی وجہ سے خاصے مشہوربھی رہے اور ہردلعزیزبھی۔مونگیر کے مشہور کالج سے سبکدوشی کے بعد مسلسل علالت سے دوچار رہے اور آخر کار ان کی زندگی کا ستارہ4مارچ کو غروب ہوگیا۔
پروفیسر راشد طراز معروف ادیب و ناقد شمس الرحمن فاروقی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے۔حالانکہ دورِ حاضر اور ماضی قریب کے تمام ناقدین ادب یکساں طورپر راشد طراز کی شاعری کے قدر داں رہے اور ان کی شعری و ادبی کاوشوں کی قدرافزائی میں کہیں کوئی کمی دیکھنے کو نہ ملی۔یہی وجہ ہے کہ جب سوشل میڈیا پر پروفیسر راشد طراز کی رحلت کی خبر عام ہوئی تو اُردو کی کمائی کھانے والے’استاد‘ سے لے کر شعر وادب کو اظہارکا وسیلہ بنانے والے لوگوں تک کے درمیان غم کی کیفیت دیکھی گئی۔
مونگیر کی معروف ادبی شخصیت پروفیسر شمشاد سحر کی شاگرددی کا بھی انہیں شرف حاصل رہا۔زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و ادب سے سروکار رکھنے والے پروفیسرراشد طرازایک بہترین شاعر کے طورپر اپنی شناخت بھی رکھتے تھے۔مونگیر کی معروف ادبی انجمن’اردو فورم‘ کے بینر تلے منعقد ہونے والی ادبی تقریب میں موصوف نہ صرف یہ کہ شرکت کرتے بلکہ اپنے کلام کے ذریعہ حاضرین کو محظوظ بھی کراتے۔پروفیسر راشد طراز کے کئی مجموعہ ہائے کلام منظر عام پر آئے،جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔بطور خاص’شہر منافق‘،’کاسہ شب‘،’ستارہ شکستہ‘،’غبار آشنا‘،’گردش ناتمام‘،’جہاں تک روشنی ہوگی‘ اور’صبح ازل‘ نامی ان کے شعری مجموعوں کو ادب نواز حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
پروفیسر راشد طراز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صحافی سے”استادی” تک کا سفر طئے کرنے والے ممتاز قلمکار زین شمسی نے لکھا کہ”مونگیر کی تناور ادبی شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی۔ خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہا ہوں۔ آپ نہ صرف بہترین استاد تھے بلکہ طلبا کے لئے بے لوث محبت کا جذبہ رکھنے والے شفیق سرپرست بھی تھے۔میں اکثر طلبا اور اساتذہ کے درمیان کے رشتوں کو مضبوط اور مفید بنانے کا ہنر سیکھنے کے لئے ان سے مشورہ لیتا رہا۔ مونگیر کے سب سے معروف کالج آر ڈی اینڈ ڈی جے کالج میں انہوں نے اردو کی جڑ کو بے حد مضبوط کیا طلبا کو کالج کے علاؤہ گھر پر بھی پڑھایا کرتے تھے، تاہم سگریٹ کی کثیر نوشی نے ان کی صحت اور ان کی آواز کو حددرجہ متاثر کر دیا تھا، جس کے سبب شاگردوں کو انہیں سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی۔ انہوں نے مونگیر یونیورسٹی پی جی ڈپارٹمنٹ کی داغ بیل رکھی اور کامیابی کے ساتھ اسے سرگرم عمل کیا۔وہ منکسرالمزاج اور انتہائی شریف آدمی تھے۔ اپنے افکار و خیالات کو اپنی شاعری کے ذریعہ ادا کرتے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ ابھی کچھ دن قبل ہی ان کا کلیات منظرعام پر آیا۔ان کی شاعری شاد، میر اور درد کی شاعری کی یاد دلاتی ہے۔ اکثر کہتے چھوٹے شہر کا شاعر ہوں جناب، مجھے بڑے نقاد کہاں دستیاب ہوں گے۔ تاہم اردو کی بیشتر قداور شخصیات نے ان کی شاعری کو اعلی معیار کی شاعری کا رتبہ دیا مگر ان پر جتنا لکھا جانا چاہئے، اس حق سے وہ محروم رہے۔ شاید آنے والے اسکالرس ان کے ادبی کارناموں کو عزت بخش سکیں۔ ان کی شاعری کی مقبولیت کا پتہ اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مونگیر کا متعصب ادبی حلقہ ہمیشہ ان کا ادبی قد چھوٹا کرنے کی کوشش کرتا رہا”۔
دوسری جانب اندور کی معروف شخصیت مسعود بیگ تشنہ لکھتے ہیں کہ”راشد طراز صاحب سال بھر سے دل کے عارضے سے زیادہ تکلیف میں تھے. پانچ چھ ماہ سے ان کے کلام کا رنگ بھی بدل گیا تھا. روحانی اور اَنسُلجھے سے معاملات غزل میں جگہ پار رہے تھے. دل و دماغ کی رسّا کشی چل رہی تھی. الفاظ مربوط ہونے میں پریشانی جا رہی تھی۔ الفاظ خیالات کا ساتھ نہیں دے پا رہے تھے. ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنی موت کا احساس چھ ماہ پہلے ہو گیا تھا اور اسی حساب سے ان کے کلام میں منتشر خیالات جگہ بنا رہے تھے۔ ذات، حیات و حیات بعد الموت کے معاملات میں ان کا تخیّل تیز ہو گیا تھا. وہ مجھ سے میسینجر سے جڑے تھے جس میں درج گزشتہ چھ ماہ کی بات چیت کی بنیاد پر میں یہ کہ پا رہا ہوں۔وہ مجھے اپنی کتابیں بھیجنا بھی چاہ رہے تھے، مگر بھجوا نہیں سکے۔ ان کی ایک دو کتابوں پر میں نے تبصرے بھی کیے ہیں. پروفیسر راشد طراز کا آبائی وطن مُونگیر، بِہار ہے. آپ چھ سات کتابوں کے خالق تھے۔ جس میں بیشتر شعری مجموعے تھے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین”۔ اسی طرح ارشد عبدالحمید نے فیس بک پر لکھاکہ”بہت افسوس ہوا۔ اللہ مغفرت فرماۓ ۔ ہمارے ہم عمر تھے اور رسالوں میں ساتھ ساتھ چھپتے تھے۔ گزشتہ دو تین برسوں میں ان کے کئی مجموعے مسلسل شائع ہوئے اور انھوں نے مجھے بھیجے”۔دوسری جانب معروف استاد اور زود نویس قلمکار صفدر امام قادری نے "آہ” لکھ کر تعزیت کی رسم ادا کی۔ اسی درمیان فیس بک پر عین تابش نے لکھا”بیحد دردناک بیحد رلانے والی خبر ہے”۔ادھر شمیم قاسمی نے تعزیتی کلمات کچھ یوں لکھا:”نہایت افسوسناک خبر ۔۔ یقین نہیں آتا ۔۔۔ غالباً ماہ جنوری ٢٠٢٥ میں کسی روز انکی کال آئ تھی ۔۔میرا مکمل پتہ مانگ رہے تھے تازہ مطبوعات بھیجنے کے لیۓ ۔۔۔۔ایک بہترین شاعر ایک مخلص انسان کی بے وقت جدائی روح کو تڑپا گئ ۔۔۔ اللہ پاک مغفرت فرمائے۔۔ آمین ۔۔۔اور تمام متعلقین کو صبر جمیل عطا فرماۓ "۔۔
پروفیسر راشد طراز کی شاعری کا انداز جداگانہ رہا اور انہوں نے اپنے اندازِ شاعری کا بہترین نمونہ بطور میراث چھوڑا ہے،اس کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے:
لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے
دل کے ویرانے ہم آباد کہاں تک کرتے
۔۔۔
وجود کے لئے لڑتے رہیں گے آخر تک
صلیب پر بھی ہمیں خامشی گوارہ نہیں
۔۔۔
اب آسماں کی چلو حد تلاش کی جائے
بلا رہا ہے ستاروں کا قافلہ مجھ کو
۔۔۔
ہر طرف شمع محبت کے اجالے تھے یہاں
صورتیں تھیں یہ اندھیرا تو نہیں تھا پہلے
۔۔۔
آزمائش سے گزرتا جا رہا ہوں جوش میں
کیا پتہ دریائے امکاں اور کتنی دور ہے
۔۔۔
حق کی آواز میں آواز ملاتے چلئے
کارواں بڑھتا رہے گا یہ جدھر جائے گا
۔۔۔
روشنی چھائی ہوئی رہتی ہے اب مجھ پہ طرازؔ
کوئی تو ہے جو عنایت سے مجھے دیکھتا ہے
۔۔۔
بھٹکتا جا رہا ہوں راہ رو ملتا نہیں کوئی
غبار راہ میرے کارواں تک لے چلو مجھ کو