آج بعد نماز ظہر خانقاہ رحمانی میں مرحوم کے جنازے کی نماز اداکی جائے گی
نئی دہلی(شاہدالاسلام)بہارکی سرکردہ سیاسی شخصیت تنویر حسن کے برادر بزرگ پروفیسر شبیر حسن اس دنیا میں نہیں رہے۔ آج مونگیر میں ان کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ موصوف کی عمر تقریباً 72 سال تھی۔ کل بعد نماز ظہر جنازہ کی نماز خانقاہ رحمانی مونگیر میں ادا کی جائے گی اور تدفین خانقاہ رحمانی کے قبرستان میں ہوگی۔ پروفیسر شبیر حسن کا تعلق بیگوسرائے کے قصبہ چھوٹی بلیا سے تھا لیکن بہ حیثیت پروفیسر انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ مونگیر میں گزارااور سبکدوشی کے بعد انہوں نے مستقل یہیں سکونت اختیار کی اور اب یہیں انہیں سپرد خاک کیا جائے گا۔
پروفیسر شبیر حسن پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے سب سے چھوٹے بھائی تاج حسن آئی پی ایس افسر ہیں اور اس وقت ڈائریکٹر جنرل، فائر سروسز، سول ڈیفنس اور ہوم گارڈز کے عہدہ پر تعینات ہیں،جبکہ ان کے ایک بھائی تنویر حسن بہار کی سیاست میں طویل مدت تک صَحْرا نَوَرْدی کرتے رہے ہیں۔ انہیں 1990سے 2014 کے درمیان بہار قانون ساز کونسل کی رکنیت سے بھی کئی بار سرفراز ہونے کا مل چکا ہے۔ اس وقت موصوف راشٹر جنتادل کے صوبائی نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہیں ۔
پروفیسر شبیر حسن کا علم و ادب سے گہرا تعلق رہا۔انہوں نے ہندی اور اردو میں کئی ایسی کہانیا ں لکھیں، جنہیں ادب نوازوں کے ذریعہ خاصا پسند کیا گیا۔ ان کا تنقیدی شعور خاصا بالیدہ تھا۔ ان کی کئی تصنیفات بھی منظت عام پر آچکی ہیں۔ پروفیسر شبیر حسن کے اردو افسانوں کا مجموعہ ” دھوپ کے مسافر” کے نام سے 2000 میں شائع ہوچکا ہے۔ جبکہ ان کی ایک اور اردو تصنیف "مولانا حسرت موہانی: تحریک آزادی کے جاں باز سپاہی” کے نام سے 1981 میں منظر عام پر آچکی ہے۔
موصوف سیاست سے بھی وابستہ رہے اور کمیونسٹ خیالات سے بڑے متاثر تھے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ سابق امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی کے موصوف معتمدین میں شامل رہے اور یوں جب کبھی مولانا ولی رحمانی کو کسی خاص مسئلے پر مشاورت کی ضرورت پڑتی،موصوف خانقاہ رحمانی طلب کئے جاتے اوراپنے خیالات اور نظریات سے مولانا مرحوم کو واقف کراتے۔ مجموعی طورپر پروفیسر شبیر حسن کی ذات مونگیر والوں کیلئے کئی لحاظ سے قابل توجہ رہی۔