نئی دہلی (پریس ریلیز)۔ فراق ایک جینیئس تھے۔ وہ فطری شاعر تھے بناوٹی نہیں تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کو ایک جدید عاشق دیا۔ فراق کے پاس مقامی تھیوری ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ملک کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ شام ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام ’فراق گورکھپوری: شخصیت اور فن‘ موضوع پر منعقدہ ’لٹریری فورم‘ پروگرام میں اردو کے ممتاز اسکالر، نقاد، دانشور ڈاکٹر سید تقی عابدی نے اپنے خصوصی خطبے میں کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اردو میں فراق جیسا کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا۔ وہ ایک نابغہئ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ ڈاکٹر عابدی نے فراق کی حالات زندگی پر بھی روشنی ڈالی اور ان کے کلام پیش کرتے ہوئے اپنی دلیلیں قائم کیں۔
پروگرام کے ابتدا میں اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر جناب چندربھان خیال نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ فراق بیسویں صدی کی اردو ادب کی سب سے اہم ترین شخصیت تھے۔ انھوں نے اردو کے ہر صنف کو مالامال کیا، چاہے وہ شاعری ہو یا تنقید۔ وہ ہرفن مولیٰ شخصیت کے مالک تھے۔ فراق کی شخصیت میں جو بے باکانہ انداز تھا وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔
پروگرام کی صدارت ممتاز اردو و عربی اسکالر پروفیسر اخترالواسع نے کی۔ انھوں نے فراق کو ہندوستانیت کا شاعر قرار دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ خواجہ احمد فاروقی کہا کرتے تھے کہ اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری شاعری پرانے ڈھرّے پر چلتی رہتی۔ فراق اس میں ہندوستانیت لے آئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حسن کو شاعری کا محور و مرکز بنانے والا فراق ہے۔ پہلے اردو ادب میں عاشق ہوا کرتے تھے، فراق نے ہمیں حسن سے روشناس کرایا۔ فراق کا ایک رنگ غزلوں میں ہے تو دوسرا رنگ روپ کی رباعیوں میں ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر سید تقی عابدی کے حوالے سے کہا کہ ڈاکٹر عابدی بنیادی طور پر اردو ادب میں لائٹ ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروگرام کی خوبصورت نظامت ساہتیہ اکادمی اردو مشاورتی بورڈ کے رکن ڈاکٹر ابوظہیر ربانی نے کی۔ آغاز میں اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے شال اور کتابیں پیش کرتے ہوئے مہمانوں کا استقبال کیا۔