نئی دہلی (یو این آئی) معروف مفسر اور ماہنامہ الفرقان کے سابق ایڈیٹر مفتی عتیق الرحمان سنبھلی ملی و فکری جہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ممتاز دانشور پروفیسر محسن عثمانی نے کہا کہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی فکری قیادت کی ہے ۔ یہ بات انہوں نے ماہنامہ الفرقان کی خاص اشاعت‘ذکرعتیق’ کی رسم اجراءکے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ ماضی قریب کے ہندوستان میں ایسے چند ہی لوگ ملیں گے جو ہندوستان کی عام صورت حال اور مسلمانوں کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی امتیازی خصوصیت کی بنا پر مولانا کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کے جو حالات ہیں وہ تکلیف دہ ہیں اور ہندوستانی تاریخ میں اس طرح کے حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے ۔ معروف عالم دین اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے کہا کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی حضرت والد ماجد ؒ کی پہلی اولاد تھے ۔وہ ان کی اسلامی حمیت اور دینی غیرت کے سب سے بڑے وارث بھی تھے ۔مولانا سنبھلی ان عبقری شخصیات میں تھے جن کی نظر ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل کے متعدد بلکہ متضاد پہلوؤں پر ہمیشہ رہتی تھی۔قرآن مجیدسے مولانا کو گہری مناسبت تھی۔ان کی تفسیر’محفل قرآن‘ اس کا بہترین نمونہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وہ نازک حالات میں بھی ملکت اور اسلام کی خدمت کرتے رہے اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنایا۔جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر مولانا محمد جعفر نے کہا کہ مولانا ایک دیدہ ور صحافی، محقق اور مفسر قرآن تھے ۔محفل قرآن کے نام سے ان کی تفسیر /۶ جلدوں میں شائع ہوچکی ہے ۔
اس تفسیر میں طلبائ، اہل علم اورعلماءکے لیے بڑی بصیرت افروز رہنمایاں موجود ہیں۔یہ اللہ کے کلام کی برکت ہی تھی کہ مولاناؒ کے قلب میں بھی اسلامی حمیت رچی بسی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ذہن سے نکل کر جوبات سامنے آتی تھی اس میں اسلامی رنگ پوری طرح غالب رہتا تھا۔صدارتی خطاب میں ڈاکٹر سید فاروق نے کہا کہ مولانا ہر بات کو سلیقہ کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر رکھتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے پڑھنے والوں کا اپنا ایک حلقہ تھا۔مولانا اپنی تحریروں سے مخالفت کرنے والوں کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ بھی کرتے تھے ۔مولانا کی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت کے لیے وقف تھی۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ تھا ہی نہیں۔ آج کی یہ تقریب مولانا کی شخصیت، حیات و خدمات کے اعتراف میں اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے ۔
مولانا رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا سب سے بڑا امتیاز ملت کے لیے ان کی دردمندی اورملک میں مسلمانوں کے حالات پرفکر مندی تھی۔وہ ملت اسلامیہ کے خلاف سازشوں پر اپنا دو ٹوک نظریہ رکھتے تھے ۔انھوں نے نامساعد حالات میں بھی ملت اسلامیہ کی فکری رہنمائی کی۔ ممتاز صحافی اور خبردار جدید کے اڈیٹر معصوم مرادآبادی نے کہا کہ حضرت مولانا منظور نعمانیؒ کے پورے خاندان نے بڑی علمی و دینی خدمات انجام دی ہیں۔مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اپنے والد کے حقیقی جانشین تھے ۔انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔اور آج کے دور میں ملت اسلامیہ کو جن مسائل و مصائب کاسامنا ہے اس میں مولانا سجاد نعمانی جیسے بے لاگ، بے باک اور بے خوف لوگوں کی ضرورت ہے ۔
بزرگ صحافی منصور آغا نے کہا کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی سے میرا تعلق قلبی تھا۔ ایمان کے بغیر اعمال کی کوئی حیثیت نہیں اور ایمان عمل کے ساتھ ہی کامل و اکمل ہوتا ہے ۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے اپنے ایمان کو خالص کیا۔مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے صاحبزادے اکبر عبیدالرحمن سنبھلی کے مولانا کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اباجان نے ہر کام کو پورے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ سے اجر کی امید پر کیا۔معروف اسلامی اسکالراورملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم صاحب اپنی مصروفیت کی بنا پر شرکت نہیں کرسکے لیکن انھوں نے اس موقع پر اپنا ایک پیغام بھیجا، جسے سہیل انجم نے نظامت کرتے پڑھ کر سنایا۔