رہائی کے حکم کے باوجود فوری طور پر رہاممکن نہیں
اسلام آباد(ایجنسیاں)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو توشہ خانہ کیس میں دی گئی سزا کو معطل کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ادھر پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ضمانت پر رہائی کے حکم کے باوجود چیئرمین تحریک انصاف اور اُن کی اہلیہ فوری طور پر رہا نہیں ہو سکیں گے کیوں کہ سائفر اورعدت میں نکاح کے مقدمات میں وہ اب بھی سزا یافتہ ہیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف مبینہ ’عدت میں نکاح‘ کے مقدمے میں تین فروری 2024 کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اسلام آباد کی مقامی عدالت کے سینیئر سول جج قدرت اللہ کی جانب سے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سات، سات سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ جرمانہ کی سزا سُنائی گئی تھی۔تاہم دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کو 30 جنوری 2024 کو اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت دس سال قید کی سزا سُنائی تھی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے 10 اپریل 2022 کو وزارتِ اعظمیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا تھا۔اس سے تقریباً دو ہفتوں قبل 27 مارچ کو عمران خان نے اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک جلسے کے دوران حامیوں کے سامنے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ وہ ’سائفر‘ ہے جس میں درج ہے کہ انھیں اقتدار سے نکالنے کے لیے کس طرح امریکہ میں سازش کی گئی۔جلسے کے بعد عمران خان نے ایک اور تقریر میں دعویٰ کیا کہ اُس وقت کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے کہا کہ ’اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف کر دیں گے۔‘
عمران خان کا اصرار تھا کہ ڈونلڈ لو اس امریکی سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد اُن کی حکومت کو ہٹانا تھا۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی۔عمران خان ماضی میں متعدد مرتبہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو اس ’سازش‘ کا مرکزی کردار قرار دے چکے ہیں۔پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت ایک مقدمہ درج کیا جس کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحقیقات کا حکم سابق وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 19 جولائی 2023 کو دیا تھا اور 29 اگست 2023 کو سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری ڈال دی گئی۔اس کیس میں عمران خان پر بنیادی الزام یہ تھا کہ انھوں نے سیاسی فائدے کے لیے ایک حساس سفارتی دستاویز کا استعمال کیا۔اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ سائفر کو سیکرٹ ایکٹ کے تحت پبلک نہیں کیا جا سکتا ہے مگر عمران خان نے اس سائفر کو منٹس اور تجزیے میں تبدیل کیا اور اس کے ساتھ ’کھلواڑ‘ کیا۔بعدازاں ایک انٹرویو کے دوران عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ ان کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی ’غائب‘ ہو چکی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی قانونی ٹیم کا اس حوالے سے موقف ہے کہ سائفر کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے آفس کے عملے کی تھی نہ کہ خود عمران خان کی۔
25 نومبر 2023 کو بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے اسلام آباد کے سول جج قدرت اللہ کی عدالت سے رجوع کیا اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف دورانِ عدت نکاح کا کیس دائر کیا۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ دورانِ عدت نکاح کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کیا۔خاور مانیکا نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔28 نومبر کو ہونے والی سماعت میں نکاح خواں مفتی سعید اور عون چوہدری نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔تاہم اس کے بعد 5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں خاور مانیکا کے گھریلو ملازم اور کیس کے گواہ محمد لطیف نے بیان قلمبند کرایا تھا۔تاہم تین فروری کو سابق وزیر اعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غیر شرعی نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔