دھولیہ:دھولیہ سیشن عدالت کے جج اعجاز ایچ سید نے سونگیر فساد میں گرفتار تمام ملزمین کو نا کافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے بری کردیا۔اس مقدمہ میں پولس نے کل 38؍ لوگوں کو گرفتارکیا تھا جس میں ہندو اور مسلم دونوں شامل تھے۔مقدمہ سے بری ہونے والے ملزمین صدام جابر قریشی، اقبال یونس کھٹیک،ارشد خان فرید خان قریشی، وسیم خان محسن خان پٹھان، شیرو خان عباس خان، نعیم شیخ احمد قریشی، تجمل ہارون کھٹیک کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امدا د کمیٹی نے قانونی امداد مہیا کرائی تھی، ملزمین کے دفاع میں اشفاق شیخ پیش ہوئے۔اس مقدمہ میں ملزمین کی گرفتاری کے بعد ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے تین مسلم نوجوانوں کو مشروط ضمانت کیئے جانے کا حکم دیا تھا جن کے نام ارشد خان فرید خان قریشی، وسیم خان محسن خان، شیرو خان عباس خان ہیں جبکہ بقیہ ملزمین کو سیشن عدالت سے ضمانت ہوگئی تھی۔ اس مقدمہ میں کل 13؍ سرکاری گواہوں کو استغاثہ نے گواہی کے کے لیئے عدالت میں پیش کیا لیکن سیشن جج نے ان کی گواہی کو معتبر ماننے سے انکار کردیا اور تمام ملزمین کو مقدمہ بری کردیا ۔ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات147,148,307,353,332,336,337,295 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا ۔
سیشن عدالت کے جج سید اعجاز نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ، گواہوں کے بیانات میں کھلا تضاد ہے، استغاثہ کے مطابق یہ واقع دن کے وقت ایک پر ہجوم مقام پر ہوا تھا لیکن سرکاری گواہوں نے استغاثہ کے دعوے کی تصدیق نہیں کی۔کریمنل ٹرائل میں سزا کا انحصار مضبو ط ثبوت و شواہد پر ہوتا ہے ، عدالت کو یقین ہونا چاہئے کہ گواہان کی گواہیاں قابل اعتماد ہیں۔کریمنل ٹرائل میں اصل حقیقت تک پہنچنا عدالت کے لیئے اکثر مشکل ہوتا ہے عدالتی عمل صرف ریکارڈ پر موجود حقیقی اور معتبر شواہد کی مضبوط بنیادوں پرکام کرسکتا ہے ، محض شک کی بنیاد پرملزمین کو سزا ئیں نہیں دی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ 18؍ فروری 2018 کو خاندیش کے حساس علاقہ دھولیہ سے 20؍کلو میٹر کی دوری پر واقع سونگیر نامی گائوں میں اکثریتی فرقہ نے معمولی سی بات پر مسجد پر حملہ کر کے مسجد اور اس کے باہرمسلمانوں کی کھڑی پیک اپ اور ٹھیلہ گاڑی میں توڑ پھوڑ مچائی تھی ،اور کافی نقصان پہونچایا تھا جس کے دوران مسلم نوجوانوں نے بھی مزاہمت کی تھی جس پر ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی ۔
واقع کی اطلاع موصول ہوتے ہی مقامی پولس عملہ نے دو نوں فرقوں کے لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور ان پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات اور بامبے پولس ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا ۔جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء دھولیہ کی قانونی کمیٹی کے ارکان صوفی مشتاق، مصطفی پپو ملا، محمود ربانی، حاجی عبدالسلام ماسٹر ود یگر نے مقدمہ پیروی کی ۔