پچھلے تین مہینوں میں یہ پانچواں واقعہ ہے جب ریاست میں ماحول کو بگاڑنے کی کی گئی کوشش
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے وکاس نگر میں ہفتہ کی رات دیر گئے دو فریقوں کے مابین ایک تنازعہ پیدا ہوا اور معاملہ لڑائی تک پہنچ گیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس تنازعہ کے دوران ، ایک نامعلوم ہجوم نے شہر کے وسط میں واقع ایک کالونی میں مسلمانوں کے دو مکانات کو نشانہ بنایا۔ پولیس نے اس معاملے میں 11 نامزد اور بہت سے نامعلوم افراد کے خلاف ایک رپورٹ درج کی ہے۔
گھروں پر حملے کے بعد ، اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق بہت سارے صحافی بھی وہاں موجود تھے۔ پولیس کو میڈیا کے کیمروں کے سامنے چیلنج کیا گیا تھا اور مبینہ طور پر مسلمانوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ۔
خیال رہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے ریاست میں فرقہ وارانہ تنازعہ کے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ پچھلے تین مہینوں میں یہ پانچواں واقعہ ہے۔ عذ را زیدی نامی ایک خاتون نے بی بی سی کوبتایا کہ جب اس کے گھر کے سامنے ایک ہجوم جمع ہوا تو اس کے والد اور بہن بھائی گھر پر نہیں تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس وقت اپنی والدہ ، بھابھی اور چھ ماہ کے بچے کے ساتھ گھر میں موجود تھیں۔ وہ کہتی ہیں ، "اچانک گھر کے باہر سے جئے شری رام کے نعرے لگانے کی آوازیں آ گئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ باہر نکلو آج تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔”
اس کے علاوہ ، کچھ لوگوں نے وکاس نگر میں سڑک کے کنارے کھڑے مسلمانوں کے پھل اور سبزیوں کے ٹھیلوں کو بھی الٹ دیا ۔ وکاس نگرکے پولیس آفیسر بھاسکر لال ساہ کا کہنا ہے کہ دو فریقوں کے مابین لڑائی ہوئی تھی ، جس کی وجہ سے کچھ نوجوانوں نے سڑک پر جام لگا دیا تھا۔ پولیس نے ایک پریس نوٹ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے دو مسلمانوں کے گھرپرسنگ باری اور تخریب کاری کے معاملے میں 11 نوجوانوں کو نامزد کیا ہے۔ چالیس سے پچاس نامعلوم افراد پر بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔