کرناٹک اردو چلڈرنس اکادمی کا یادگار مشاعرہ
بنگلورو(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو)سہ روزہ جشن اطفال کی اگلی کڑی کل ہند مشاعرہ ۲۶؍جنوری ۲۰۲۳ء کی شب میں منعقد ہوا۔ لطف کی بات یہ ہوئی کہ مشاعرے کے باضابطہ آغاز سے پہلے ایک افتتاحی نشست ہوئی جس میں پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر اعجاز علی ارشد، پروفیسر دبیر احمد، پروفیسر مشتاق عالم قادری، ڈاکٹر مشتاق حیدر، ڈاکٹر اقبال حسین، ڈاکٹر سالک جمیل کے علاوہ بھی بہت سارے مندوبین نے شرکت کی۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے مشاعرے کی خصوصیت اور گلشن زبیدہ کے تازہ کار وپختہ کار شعرا کی توصیف کی۔ اس کے بعد پروفیسر اعجاز علی ارشد نے خوب صورت نعتیہ اشعار سنا کر مشاعرے کا آغاز کیا۔یہ اطلاع حفیظ کرناٹکی کے ذریعہ بھیجی گئی ریلیز میں دی گئی ہے۔
اس مشاعرے کی صدارت کے فرائض پروفیسر سید شاہ مدار عقیل نے ادا کی۔ اس مشاعرے کی انفرادیت یہ تھی کہ اس کی نظامت گلشن زبیدہ کی ایک طالبہ تنزیلہ نے کی۔ اور گلشن زبیدہ کی کئی طالبات اور اساتذہ نے مشہور اور بزرگ شعرائے کرام کے ساتھ مل کر نہایت خود اعتمادی سے مشاعرہ پڑھا۔ جن شعرائے کرام نے اس مشاعرے میں حصہ لیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔مبین منور، شفیق عابدی، محمود شاہد، حسن پٹنوی، مہک کیرانوی، وسیم جھنجھانوی، ڈاکٹر داؤد محسن، عابد اللہ اطہر، رحمت اللہ رحمت، ازہر ندوی، ارقم مظہری، فنا شیموگوی، سیما کوثر، مبین پروین، مسکان بانو، شائستہ، چاچا شکاری پوری، ماما شکاری پوری، انکل شکاری پوری،۔طالبات کی خود اعتمادی اس کے پڑھنے کے انداز اور اشعار کے طریقے نے لوگوں کو بے حد متأثر کیا۔ صدر مشاعرہ پروفیسر سید شاہ مدار عقیل صاحب کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ لہٰذا ایک طالبہ کے ایک غزل اور ایک گیت سنانے کے بعد ہی انہوں نے اعلان کردیا کہ آج ہم سبھی ان طالب علموں کو زیادہ سے زیادہ سنیں گے اور ہم سبھی شعرا کم سے کم سنائیں گے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب اتنے متأثر ہوئے کہ انہوں نے برجستہ کہا کہ گلشن زبیدہ کے ان گل وبلبل نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ حافظؔ کرناٹکی صاحب نہ صرف یہ کہ شاعر اور ادیب ہیں بلکہ وہ ادیب ساز بھی ہیں۔ ابھی تو صرف چندبچیوںنے اپنا کلام سنایا ہے اور ہم حیرت کے سمندر میں غرق ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جیسے جیسے گلشن زبیدہ کی بچیوں کو سنتے جائیں گے حافظؔ کرناٹکی صاحب کی محنت، لگن، اور نئی نسل کے دلوں میں اردو کا چراغ جلانے کی شدید خواہش اور کوشش کے دل سے قائل ہوتے جائیں گے۔ اگر ہر ریاست میں ایک حافظؔ کرناٹکی پیدا ہوجائے تو یقین جانیے کہ اردو کے گلشن پر کبھی خزاں کا سایہ نہ ہو۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ حافظؔ صاحب نے اردو مرکز سے دور اردو کا ایک اہم مرکز بنادیاہے۔ ہم نے اس گاؤں کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ حافظؔ کرناٹکی نے گھر گھر میں اردو کا چراغ روشن کردیا ہے۔ مشاعرے کے سامعین میں موجود طلبا جس انداز سے شعرا کو داد دے رہے تھے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ تربیت یافتہ ذوق کے مالک ہیں۔ اور ان میں شعر فہمی کا مادہ پوری طرح موجود ہے۔ یہ مشاعرہ شعرا کے کلام، اور اساتذہ کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ نہایت کامیابی سے اختتام کو پہنچا۔ صدر مشاعرہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں حافظؔ کرناٹکی کو ابتدا سے جانتا ہوں وہ جس لگن خلوص، محنت اور سخاوت کے ساتھ اردو زبان و ادب کے لیے کام کرتے ہیں اس کی کوئی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔ اور آج بچوں نے تو اپنے کلام سے پورے ملک کے دانشوروں کی توجہ حاصل کرلی۔ اور احساس دلادیا کہ جب ایک حافظؔ کرناٹکی اردو کی بستی بسا سکتے ہیں تو ہم سب مل کر کام کریں تو اردو دنیا کو لوگوں کے دلوں میں بسا دینا قطعی ناممکن نہ ہوگا۔ یہ مشاعرہ نہایت خوش اسلوبی سے رات کے بارہ بجے اپنے اختتام کو پہونچا۔