ڈھاکہ:بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ناہید اسلام کا کہنا ہے کہ وہ اگلے 24 گھنٹوں کے دوران عبوری قومی حکومت کی تجاویز پیش کریں گے اور وہ کسی ایسی حکومت کو قبول نہیں کریں گے جو ان کی تجاویز اور حمایت کے بغیر بنائی گئی ہو۔

طلبہ تحریک کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’اگلے 24 گھنٹوں کے دوران میں ایک عبوری قومی حکومت کی تجاویز پیش کروں گا۔ اس میں تحریک چلانے والوں کا ایک حصہ ہو گا اور میں ان لوگوں کے نام ظاہر کروں گا جو حکومت میں شامل ہوں گے۔ اس میں سول سوسائٹی سمیت سب کی نمائندگی یقینی بنائی جائے گی۔‘
اس کے ساتھ ہی انھوں نے اعلان کیا کہ چاہے فوجی حمایت یافتہ حکومت ہو یا ہنگامی حالات کے تحت قائم کیا گیا صدارتی نظام، طلبہ ایسی کسی حکومت کو قبول نہیں کریں گے جو ان کی تجویز کردہ نہ ہو۔

اس درمیان خبروں میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں 17 روز سے جاری کرفیو کو منگل کی صبح سے ختم کیا جا رہا ہے۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے پیر کی شب ایک نوٹیفیکیشن میں اعلان کیا ہے کہ منگل کی صبح چھ بجے کرفیو کا اختتام ہوجائے گا۔ اس اعلان میں بتایا گیا ہے کہ تمام دفاتر، عدالتیں، تعلیمی ادارے اور فیکٹریاں کھول دی جائیں گی۔19 جولائی میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا اور ملک میں جاری پُرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا تھا۔اس دوران کئی بار کرفیو کی شرائط میں نرمی بھی کی گئی تھی۔ تاہم مظاہرین نے کرفیو کی سختیوں کے باوجود اپنا احتجاج جاری رکھا تھا۔
ادھرسینکڑوں مظاہرین نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ڈنڈوں سے لیس مظاہرین مرکزی دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ اس عمارت میں پولیس اہلکار موجود تھے تاہم اب تک کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں۔ ملک بھر میں کئی پولیس سٹیشنز پر حملے کیے گئے ہیں۔

اس بیچ یہ بھی خبر ہے کہ ڈھاکہ اور جیسور میں پیر کو پرتشدد واقعات کے دوران کم از کم 41 افراد ہلاک ہوئے۔ڈھاکہ اور جیسور میں پیر کو پرتشدد واقعات میں کم از کم 41 افراد ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے ڈھاکہ میں کم از کم 35 اور جیسور میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔پیر کے روز طلبہ تحریک کی جانب سے بلائے گئے ’مارچ ٹو ڈھاکہ‘ کے باعث شہر کے مختلف علاقوں میں امن و امان قائم کرنے والے دستوں اور حکومت کے حامیوں کے ساتھ مشتعل افراد کی جھڑپیں ہوئیں۔
ان جھڑپوں میں کم از کم 35 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے کئی ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں دورانِ علاج وفات پا گئے۔ہسپتال کے حکام نے بتایا ہے کہ متاثرین میں سے کئی کے جسم پر گولیوں کے نشانات ہیں۔دوسری جانب عوامی لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد جیسور میں پارٹی رہنما کے ملکیتی ہوٹل میں توڑ پھوڑ ہوئی اور آگ لگنے سے کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے جن میں سے پانچ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ ایک اور شخص علاج کے دوران فوت ہوا۔اس سے قبل اتوار کو پرتشدد واقعات میں کم از کم 90 افراد مارے گئے تھے۔ طلبہ تحریک میں اب تک تقریباً ساڑھے تین سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔